ہوتا کہ اس کو کیا تکلیف ہوئی کہ اس پر وہ ثواب کی نیت کرے اور صبر کرے اور نہ ہی اس کو صحت کی نعمت کا پتہ ہوتا ہے کہ اس پر اللہ کی حمد ادا کرے اور شکر کرے۔
63۔ حضرت لیث بن ابی سلیم سے روایت ہے کہ ’’حضرت ایوب علیہ السلام سے کہا گیا اے ایوب! اپنے صبر پر نہ اترانا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گوشت اور تمہارے خون کے ہر بال کے برابر حصہ کو کاٹا گیا ہے۔ اگر میں ہر ہر بال کی جگہ کو صبر نہ دیتا تو تو صبر نہ کرسکتا۔‘‘[1]
64۔حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں: ’’حضرت ایوب علیہ السلام کو کوئی ایک پھوڑا نہیں نکلا تھا بلکہ عورتوں کے پستانوں کی طرح پھوڑے نکلتے تھے اور پھٹ جاتے تھے۔‘‘[2]
65۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حضرت ایوب علیہ السلام سات سال تک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پڑے رہے۔ آدمی آپ کے پاس سے گزرتا تھا تو اپنے ناک کو بند کر کے گزرتا تھا حتیٰ کہ آپ کے پاس سے دو آدمی گزرے اور انہوں نے کہا اگر اللہ کو اس کی کوئی حاجت ہوتی تو یہ اس حالت کو نہ پہنچتا۔ اس وقت حضرت ایوب علیہ السلام نے (اللہ تعالیٰ کے سامنے) یہ شکایت کی اور فرمایا: ’’مجھے تکلیف پہنچی ہے۔‘‘[3]
تنبیہ: اس روایت کو ابن ابی الدنیا کے علاوہ امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب الزہد (1/109) میں اور ثعلبی نے اپنی کتاب قصص الانبیاء 124 میں روایت کیا ہے جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرات انبیاء اور رسولوں کو ایسی بیماریوں سے اور ایسے عیوب سے بچایا ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو انبیائے کرام علیہم السلام سے نفرت پیدا ہو۔
66۔ حضرت زبید فرماتے ہیں کہ ’’ابلیس نے کہا: مجھے ایوب کی کوئی چیز ایسی نہیں پہنچی جس سے مجھے خوشی ہو۔ سوائے اس کے کہ میں جب اس کے رونے کو سنتا تھا تو میں کہتا
|