Maktaba Wahhabi

211 - 292
ہوگا اور تیرے احسان اور نعمت کی وجہ سے مجھ میں تیری رضا میں راضی رہنے کا اضافہ ہوگا۔‘‘ حضرت خلف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب یہ آدمی یہ بات کہہ رہا تھا اس وقت کوڑھ کی بیماری نے اس کے ہاتھوں اور پاؤں اور اس کے اکثر بدن کو جھاڑ دیا تھا۔ حضرت خلف فرماتے ہیں: میں نے ایسے ہی ایک اور جذام والے شخص سے سنا جو کہہ رہا تھا: ’’اگر تو نے مجھے اس لیے تکلیف میں مبتلا کیا ہے کہ تو میرے صبر کو پہچانے تو مجھے صبر کی ایسی توفیق دے دے جو میری طرف سے تیری رضا کو پہنچ جائے اور اگر تو نے مجھے اس لیے مصیبت میں ڈالا ہے کہ تو مجھے اجر وثواب دے اور اپنی مصیبت کو میرے لیے اپنی رحمت تک پہنچنے کا سبب بنائے تو تیرے بندوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور احسان والا کون ہوگا۔ جس کے ساتھ تو نے مجھ پر انعام فرمایا ہے جبکہ تو نے مجھے اپنے امتحان لینے کا اہل بھی بنایا ہے۔ پس تیرے لیے ہر حالت میں حمد ہے تو ہی ہر خیر کا مالک ہے اور ہر نعمت کا بخشنے والا ہے۔‘‘ حضرت خلف فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابو سلیمان داؤد الجواربی سے ایک دن سنا جبکہ انہوں نے مجھے متوجہ ہو کر فرمایا: اے ابواسماعیل! اپنے دکھی ساتھیوں کو کہہ دو: تم صبر کو غنیمت جانو گویا کہ تم اس کی انتہا مدت کو پہنچ چکے ہو۔ حضرت خلف فرماتے ہیں: میں نے یہ بات ان مصیبت زدہ لوگوں میں سے ایک سے ذکر کی جس کی کنیت ابو میمون تھی اور وہ سمجھ دار آدمی تھا۔ اس نے مجھے کہا: اے ابواسماعیل! صبر کی کئی شرائط ہیں، میں نے کہا: اے ابو میمون وہ کیا ہیں؟ تو اس نے کہا: 1۔ صبر کی شروط میں سے ایک یہ ہے کہ تو صبر کرنے کا طریقہ جانتا ہو کہ کیسے صبر کرے گا؟ 2۔ اور کس کے لیے صبر کرے گا؟ 3۔ اور تو صبر کر کے کیا چاہتا ہے؟ اس میں تو ثواب کی نیت کرے اور اس میں نیت کو عمدہ کرے شاید کہ تجھے خالص صبر نصیب ہو سکے ورنہ تو اس جانور کی طرح ہے جس کو کوئی مصیبت لاحق ہو اور وہ اس سے پریشان ہو، پھر بیماری چلی جاتی ہے تو اس کو بھی سکون آجاتا ہے لیکن اس جانور کو یہ معلوم نہیں
Flag Counter