59۔حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا: یہ کالی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تھی اور کہا تھا۔ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے۔ جس سے میرا بدن کھل جاتا ہے۔ آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ نے فرمایا، اگر تو صبر کرے تو تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے عافیت دے دے۔ اس نے عرض کیا: میرا پردہ ہٹ جاتا ہے۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میرا پردہ نہ کھلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی تھی۔‘‘[1]
60۔حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’عبادت گزار لوگوں کو صبر سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ اسی کی وجہ سے وہ جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘[2]
61۔ حضرت حسن بن صالح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس شہر کے بہت سے لوگ مٹی میں چلے گئے۔ جنہوں نے اللہ کی اطاعت پر صبر کر کے دنیا کاٹی تھی اور قرآن نے ان کے لیے دنیا کے بدلنے کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’کیا ہماری (وعیدوں کو سن کر) یہ لوگ ہمارے عذاب کی تعجیل چاہتے ہیں۔ اے مخاطب ذرا بتلاؤ تو اگر ہم ان کو چند سال تک عیش میں رہنے دیں پھر جس (عذاب) کا ان سے وعدہ ہے وہ ان کے سر پر آپڑے تو ان کا وہ عیش کس کام آسکتا ہے۔‘‘ اس آیت کے پڑھنے کے بعد حضرت حسن بن صالح رو پڑے۔ پھر فرمایا: ’’جب موت اور اس کی سکرات آتی ہے تو اس کو اس کی وہ نعمتیں اور لذتیں جن میں وہ مصروف تھا کچھ فائدہ نہیں دیتیں۔ اس کے بعد آپ غش کھا کر لڑکھڑا گئے۔‘‘
62۔ حضرت خلف بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’میں نے ان اپاہج لوگوں میں سے ایک مصیبت زدہ آدمی سے سنا جو یہ کہہ رہا تھا: ’’تیری عزت کی قسم! اگر تو شیر کو حکم کرے جو مجھے چبا کر ٹکڑے کر دے۔ تب بھی تیری توفیق کے ساتھ تیرے لیے مجھ میں صبر کا اضافہ
|