حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًاکَثِیْرَۃً) ’’کون ہے جو اللہ کو اچھے طریقے سے قرضہ دے، پھر وہ اس کے لیے اس کا اجر وثواب بہت گنا بڑھا دے۔‘‘ اور جو کچھ اللہ نے اس امت سے زبردستی لیا اور انہوں نے صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو ان کے لیے اس کے بدلہ میں خاص رحمت اور عام رحمت اور ہدایت ملے گی اور یہ اس لیے کہ اللہ جل وعز کا ارشاد ہے: ’’ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (مع مال و اولاد حقیقتاً) اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب (دنیا سے) اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانے والے ہیں۔ ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور (سب پر بالاشتراک) عام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی تیسری عنایت ان پر یہ ہوگی کہ اگر یہ شکر کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت میں اضافہ کر دیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں (نعمتوں کو) اور بڑھا دوں گا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی چوتھی عنایت یہ ہوگی کہ اگر اس امت کے لوگوں میں سے کوئی غلطیاں اور گناہ کرے گا حتیٰ کہ کفر تک جا پہنچے گا، پھر توبہ کرے گا تو اللہ اس کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔ اور اس کو اپنی محبت نصیب کرے گا اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور گناہوں سے پاک رہنے والوں کو بھی۔‘‘ اور پانچویں نعمت یہ ہوگی کہ اگر وہ حضرت جبریل اور حضرت میکائیل علیہما السلام کو اور تمام نبیوں کو عطا کی جاتی تو ان کے لیے بھی بڑی عطا ہوتی اور وہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو میں تمہاری سنوں گا اور قبول کروں گا۔‘‘
57۔ حضرت ضحاک بن مزاحم رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (والصابرین فی البأساء والضراء وحین البأس) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بأساء سے مراد فقر ہے۔ ضراء سے مراد بیماری ہے اور حِیْنَ البأس سے مراد جہاد کے وقت صبر کرنا۔
58۔حضرت ابن عون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ہر نیک عمل کا ثواب معلوم ہے مگر صبر کا معلوم نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’صابرین کو ان کا اجر بے شمار دیا جائے گا۔‘‘
|