Maktaba Wahhabi

205 - 292
((الصبر رضا))[1] ’’صبر (اللہ پر) راضی رہنے کا نام ہے۔‘‘ 41۔ حضرت زافر بن سلیمان فرماتے ہیں: ’’حضرت لقمان حکیم نے فرمایا: یقین کی حقیقت صبر ہے اور عمل کی حقیقت نیت ہے۔‘‘ 42۔حضرت مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کا خوف اور جنت کی محبت یہ دونوں آدمی کو دنیا کی چمک سے دور رکھتی ہیں اور (آخرت کی تیاری میں) اعمال کی مشقت پر برانگیختہ کرتی ہیں۔‘‘ 43۔حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’نیکی کے اعمال میں سے کوئی عمل بھی ایسا نہیں، مگر اس کے پیچھے تکلیف ہے۔ اگر نیکی کرنے والے نے اس پر صبر کیا تو نیکی اس کو راحت کی طرف لے جائے گی اور اگر گھبرا گیا تو اس کو پہنچنے والی راحت واپس چلی جاتی ہے۔‘‘[2] 44۔حضرت ابودرداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’دنیا بڑی خائن ہے۔ اس کی نعمتیں ہمیشہ نہیں رہیں گی اور نہ ہی اس کے دکھوں سے بچا جا سکتا ہے جو آدمی زندہ رہے گا وہ تکالیف میں مبتلا بھی ہوگا اور جو مر جائے گا وہ مصیبتوں سے جان چھڑا جائے گا اور جس آدمی نے ناگہانی آفات میں صبر نہ کیا، عاجز رہے گا۔‘‘ 45۔حضرت ابوسلیمان نصیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آپ کے حواریوں نے عرض کیا: اے روح اللہ! ہمارے لیے کیا طریقہ ہے کہ ہم مکمل طور پر صبر کو حاصل کریں اور اس کی معرفت کو بھی۔ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: تمام امور میں اپنے عزم کو اپنی خواہشات کے بالمقابل رکھو، پھر اپنے دین میں کتاب اللہ کو اپنے سامنے رکھو۔‘‘ 46۔حضرت اسماعیل بن عبداللہ اپنے والد حضرت عبداللہ بن جعفر طیاررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یاسر، حضرت عمار بن یاسر اور ام عمار رضی اللہ عنھم کی
Flag Counter