35۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الصبر والسماح))[1]
’’صبر اور سماح۔‘‘
36۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: صبر اور سماح کیا ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:’’سماح اللہ کی فرض کی ہوئی چیزوں پر عمل کرنا ہے اور صبر اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے رکنا ہے۔‘‘
37۔حضرت مجاہد وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ کی تفسیر میں صبر کا معنی روزہ سے کرتے ہیں۔
38۔ حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’تین چیزیں ایسی ہیں جو جس شخص میں موجود ہوں گی، وہ نیکی کے شرف کو حاصل کر لے گا: (1)طبیعت کا سخی ہونا (2)اذیت پر صبر کرنا (چاہے وہ کسی طرف سے بھی پہنچی ہو)۔ (3)پاکیزہ گفتگو کرنا۔‘‘
39۔حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا:
((ابشری! فان اللّٰہ عزوجل قد انزل لامتی الخیر کلہ، وقد انزل: {اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ} فقالت: بابی انت وامی، ما تلک الحسنات؟ قال: (الصلوات الخمس) ثم دخل علی فقال: (ابشری! فانہ قد نزل خیر لا شر بعدہ) قلت: ما ہو بابی انت وامی؟ قال: (انزل اللّٰہ جل ذکرہ: {مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا} فقلت یا رب زد امتی، فانزل اللّٰہ تبارک اسمہ: {مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ
|