شان ہے اور صبر مشکلات میں بہترین سواری ہے۔‘‘[1]
28۔امام محمد بن علی (یعنی امام باقررحمۃ اللہ علیہ) نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد:
(أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا) (الفرقان: 75)
’’وہ لوگ فقر پر صبر کے بدلہ میں جنت دئیے جائیں گے۔‘‘
کی تفسیر میں فرمایا کہ غرفۃ کا معنی جنت ہے اور بِمَا صَبَرُوْا کا معنی فقر پر صبر کرنا ہے۔
29۔حضرت ابو یزید فیض بن اسحاق رقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے آیت: (سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ) کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ان لوگوں نے اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت پر کاربند رکھا اور اپنے آپ کو اس معصیت سے روکا۔ جس سے ان کو منع کیا گیا تھا۔ اس لیے جب اللہ تعالیٰ نے ان کا اکرام کیا تو ان کو فرشتوں نے کہا: (سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ) (تم پر سلام ہو اس دین پر چلنے کی وجہ سے جس پر تم کاربند رہے، پس یہ آخرت کا گھر کتنا ہی عمدہ ہے)۔‘‘
30۔حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے: (الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ)کی تفسیر میں فرمایا کہ صَبَرُوْا کا معنی تنگی، تکلیف اور زلزلوں میں صبر کرنا ہے اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کا معنی فراخی کے ایام اور مخفی حالت میں نیک اعمال کرنا ہے۔
31۔حضرت عطاء بن ابو مسلم خراسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جنت صبر اور تکلیف دہ کاموں کے پردہ میں رکھی گئی ہے۔ اس میں صبر یا تکلیف دہ کام کے دروازہ سے ہی داخل ہوا جا سکتا ہے اور جہنم شہوات اور لذات کے ساتھ بھر دی گئی ہے۔ اس میں خواہش نفسانی اور لذت کے دروازے سے ہی داخل ہوا جاتا ہے۔‘‘
32۔ حضرت امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت واثلہ بن اسقع رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی حضرت خصیلہ سے پوچھا: جب آپ کے ابا جان کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے ان سے کیا سنا؟’’تو انہوں نے فرمایا: مجھے انہوں نے بلایا اور میرے ہاتھ سے پکڑا اور فرمایا: اے بیٹی!
|