’’نعمت کا بیان کرنا شکر ہے اور بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔‘‘ جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ جماعت میں برکت ہے اور فرقہ بازی عذاب ہے۔‘‘ [1]
ابو معاویہ بیان فرماتے ہیں: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قمیص پہن کر یہ دعا پڑھی:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ کَسَانِيْ مَا اُوَارِيْ بِہٖ عَوْرَتِيْ وَأَتَجَمَّلُ بِہٖ فِيْ حَیَاتِيْ))
اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انھوں نے فرمایا: ’’جس شخص نے نیا لباس پہن کر یہ دعا پڑھی پھر پرانا کپڑا کسی غریب کو دے دیا تو وہ زندہ ہو یا فوت ہو جائے ، اللہ کی پناہ میں رہے گا جب تک اس کپڑے میں ایک بھی دھاگا موجود ہے۔‘‘[2]
ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: داؤد علیہ السلام نے اللہ سے سوال کیا اے اللہ! کیا آج رات مجھ سے زیادہ بھی ذکر تیری مخلوق میں سے کسی نے کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جی ہاں مینڈک نے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا:
(اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ) (سباء:13)
داؤد علیہ السلام نے فرمایا ’’اے اللہ ہم تیرا شکر کیسے کر سکتے ہیں، تو ہی نعمت عطا کرتا ہے اور پھر مزید نعمتیں نازل فرماتا ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے داؤد! اب تو نے مجھے پہچان لیا ہے۔‘‘ داؤد علیہ السلام نے کہا اے اللہ! ’’اگر جسم کے ہر بال کی دو زبانیں ہوں اور وہ ہر وقت تیرا ذکر کرتی رہیں تو وہ تیری ایک نعمت کا بھی حق ادا نہیں کر سکتی۔‘‘ [3]
موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے اللہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، اے اللہ! میں تیری کسی نعمت کو چھوٹا کیسے کہہ سکتا ہوں جبکہ میرے سارے عمل اس کے برابر نہیں ہو سکتے؟‘‘ موسیٰ علیہ السلام پر
|