’’پھر تجھ پر وہ نظر آنا چاہیے۔‘‘ [1]
بکیر رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نعمت دے اور اس پر دکھائی دے اس کو ’’حبیب اللّٰہ‘‘ اور ’’اللہ کی نعمت کا اظہار کرنے والے‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔
جسے خیر دی گئی ہو اور اس میں دکھائی نہ دے تو اسے ’’بغیض اللّٰہ‘‘ اور ’’اللہ کا ناپسندیدہ) اللہ کی نعمتوں کا دشمن‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے۔[2]
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں: ’’جو شخص اللہ کی نعمت کو پہچان لیتا ہے اور زبان سے اقرار کرتا ہے یہ اس کے لیے کافی نہیں ہو گا بلکہ اللہ مزید نعمتیں عطا کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ) (ابراهيم:7)
’’اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا ۔‘‘
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’شکر نصف ایمان ہے اور یقین مکمل۔‘‘
نعمت کی قدر نہ کرنے والے کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے:
(إِنَّ الإنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ) (العاديات:6)
’’بے شک انسان اپنے رب کا یقینا بہت ناشکرا ہے۔‘‘
مصیبت کو یاد رکھا جاتا ہے اور نعمتوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔اسی وجہ سے عورتیں جہنم میں زیادہ داخل ہوں گی۔ اگر کوئی ساری عمر احسان کرتا رہے اور کچھ کوتاہی ہو جائے تو کہتی ہیں: ’’تم سے تو مجھے خیر کبھی پہنچی ہی نہیں، جب ایسا کرتی ہیں تو خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری اصل میں اللہ کی ناشکری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|