ہے اور اگر وہ شکر نہیں کرتا تو اس نعمت کو عذاب سے بدل دیتا ہے۔ اسی وجہ سے علماء شکر کو ’’محافظ‘‘ بھی کہتے ہیں، کیونکہ یہ اللہ کی موجودہ نعمتوں کی حفاظت کرتا ہے اور شکر کا دوسرا نام جالب (کھینچنے والا) ہے۔ کیونکہ یہ ان نعمتوں کو جو ہمیں نہیں ملی ہوتیں انھیں کھینچتا ہے۔‘‘
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ہمدان کے ایک آدمی سے کہا: ’’نعمت شکر کے ساتھ بندھی ہوئی ہوتی ہے اور شکر مزید نعمت کے ساتھ جکڑا ہوا ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک ہی زنجیر سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور اللہ کی مزید نعمت کی زنجیر اس وقت تک نہیں ٹوٹے گی جب تک بندہ شکر کی زنجیر کو نہ توڑے۔‘‘
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: ’’اللہ کی نعمتیں اللہ کے شکر کے ساتھ جکڑی ہوئی ہیں اور کہا جاتا تھا کہ شکر نعمتوں کی زنجیر ہے۔‘‘
مطوف فرماتے ہیں: ’’مجھے عافیت پر شکر کرنا مصیبت پر صبر کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’نعمتوں کا ذکر کثرت سے کرو کیونکہ ان کا تذکرہ کرنا ہی شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو نعمت کے بیان کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
(وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ) (الضحٰي:11)
’’اور لیکن اپنے رب کی نعمت، پس (اسے) بیان کر۔‘‘
اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں کہ اس کے بندے پر نعمت کے اثرات نظر آئیں اور یہ بزبان حال اللہ کا شکر ہے۔
فرمان نبوی ہے: ’’تکبر اور اسراف کیے بغیر کھاؤ، پیو اور صدقہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ بندے پر اپنی نعمت کا نشان دیکھے۔‘‘[1]
صحابی رسول مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں پرا گندہ حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تیرے پاس مال ہے؟‘‘
میں نے کہا: جی ہاں۔ اونٹ گھوڑے، غلام اور بکریاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|