Maktaba Wahhabi

288 - 372
گئے۔یوسف علیہ السلام نے کہا ابا جان یہ ہے میرے اس خواب کی تعبیر جو میں نے پہلے دیکھی تھی۔اللہ نے اسے حقیقت بنا دیا۔‘‘ تیسیر القرآن میں ہے: ’’جب حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کا خاندان حضرت یوسف علیہ السلام کی دعوت پرمصر آئے تو حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے فوجی اور سول افسران نے حدود مصر پر ان کا شاندار استقبال کیا اور انہیں گلے لگایا اور اس روز پورے مصر میں جشن کاسامان تھا۔عورتیں،مرد اور بچے سب اس جشن اور جلوس کو دیکھنے آئے۔مزید اکرام کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو اپنے عرش پر بٹھا دیا۔جب خاندان کے افراد نے حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ توقیر دیکھی تو گیارہ بھائی،والداور والدہ سب کے سب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدے میں گرگئے یہ سجدہ تعظیمی تھا۔جو کہ پہلی امتوں میں جائز تھا لیکن اب منسوخ ہوچکا ہے۔یہی خواب کی تاویل تھی۔جس کو حضرت یوسف علیہ السلام نے گیارہ ستارے اور قمر و شمس کوسجدہ کرتے دیکھا تھا۔خواب اور اس کی تاویل پوری ہونے میں چالیس سال کا عرصہ تھا۔‘‘ ۳۶؎ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’یہ لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں اپنے والدین او راہل و عیال سمیت مصر پہنچے۔مصر پہنچ کر جب حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اپنے والدین کو خاص اپنے پاس جگہ دی او ران سب لوگوں کا خیر مقدم کیا: ﴿اُدْخُلُوْ مِصْرَ إِنْ شَائَ اللّٰہ آمِنِیْنَ﴾خیر مقدم کا جملہ ہے یعنی مصر میں داخل ہوجائیے۔یہ داخلہ انشاء اللہ امن و اطمینان کاموجب ہوگا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے شہر سے باہر نکل کر ان لوگوں کا استقبال کیا اور اس شان وشوکت سے ان کو شہر میں لائے کہ جشن کی صورت پیدا ہوگئی۔ اَبَوَیْہِ کا لفظ یہاں علی سبیل التغلیب استعمال ہوا ہے۔اس لئے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ان کی پرورش ان کی سوتیلی ماں نے کی تھی جو ان کی حقیقی خالہ بھی تھی۔‘‘ ۳۷؎ دادا کے حقوق و فرائض اور آداب دادا ددھیال کا سربراہ اور سردار کہلاتا ہے کیونکہ ددھیال کے تمام معاملات اس کی طرف لوٹ کر آتے ہیں اور باپ کی عدم موجودگی میں دادا ہی باپ کے قائم مقام ہوتا ہے۔اسی لئے تو اکثر اوقات دادا کی طرف نسبت کی جاتی ہے،جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت دادا کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: ((أنأ النبی لا کذب،أنا ابن عبد المطلب)) ۳۸؎ ’’میں بلا شبہ سچا نبی ہوں،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ’’عبداللہ‘‘ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دادا کو باپ کے مقام پرلانا اس بات کی دلیل ہے کہ باپ کی عدم موجودگی میں دادا باپ کے قائم مقام ہوتے ہیں اور تمام معاملات اور تمام حقوق و فرائض باپ کے متعلق ہوتے ہیں وہ دادا کے لئے بھی بعینہٖ ہوں گے۔جن کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔البتہ باپ سے مستثنی ٰ جو امور دادا کے لئے خاص ہیں ان کو زیربحث لایاجاتا ہے۔
Flag Counter