و علما یعمل بہ بعدہ‘‘۴۱؎ ’’خیر و برکت اور فوز و فلاح کے کا م جو انسان اپنے پیچھے چھوڑتا ہے وہ تین قسم کے ہیں: 1۔ نیک اولا د جو اپنے باپ کے لئے دعا کرے تو وہ دعا اس فو ت شدہ کو پہنچتی ہے۔ 2۔ صدقہ جاریہ(کنواں بنانا،نلکا لگانا،کسی غریب و بے کس کے لیے سہارا بنتے ہوئے اس کا گھر بنا نا وغیرہ) تو ایسے صدقے کا اجر و ثواب اسے قبر میں پہنچتا رہتاہے۔ 3۔ ایساعلم(جو اس کے ذریعے پھیلا ہو ) جس پر اس کے فوت ہونے کے بعد عمل کیا جاتا ہے۔ مذکورہ احادیث مبارکہ میں،حقوق اولاد کی دینی ضرورت و اہمیت کو ثابت کیا گیا ہے کہ والدین اگر اپنے فرائض بطریق احسن سر انجام دیں گے تو دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے ان کا فائدہ ہو گا دینی یہ کہ والدین کی حیات کے ساتھ ساتھ ان کی وفات کے بعد بھی اجرو ثواب مسلسل روا ں دواں رہے گا جس سے ان کی نجات ہو سکتی ہے اور دنیاوی فائدہ یہ کہ وہ اپنی معاشیات و اقتصادیات کو حلال و جائز ذریعے سے حاصل کریں گے اور مستحق جگہوں پر صرف کریں گے اور حرام خوری ومعاصی سے اجتناب کریں گے تو جیسے نیکی کرنا ثواب ہے ویسے اولا د کا مختلف معصیات سے اجتناب کرنا بھی کسی اجر سے خالی نہیں۔ بسااوقات توایسے ہوتاہے کہ لڑکی تودرکنارلڑکوں کو املاق وافلاک کے ڈرسے قتل کردیاجاتاہے۔اول توالڑاساؤنڈسے جنین کے موجود ہونے کاپتہ لگاکر اسی حالت میں قتل کردیاجاتاہے حالانکہ والدین پراولادکاحق ہے کہ اللہ کی دی ہوئی عیش وحیات کوبسرکرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔اگروالدین اولاد کا حق زندگی فقرواملاک اورافلاس کے خوف سے پامال کریں گے جن حقوق کوپوراکرنافرضیت کادرجہ رکھتاہے۔تواللہ کے ہاں مجرم ٹھہریں گے۔اورذلت ورسوائی ان کامقدرٹھہرے گی وہ اس لیے کہ ایک توانہوں نے اللہ کے کیے ہوئے وعدے کوٹھکرا دیاکہ﴿وَمَامِنْ دَآبَّۃٍفِیْ الأرْضِ اِلَّاعلیٰ اللّٰہِ رِزْقُہَا﴾کہ ہر جاندار کارزق اللہ کے ذمہ ہے۔اوردوسرا یہ کہ ناحق قتل کرکے جرم عظیم کاارتکاب کیااورتیسرا یہ کہ اپنی خونی اولاد سے حسن سلوک روانہ رکھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْخَسِرَالَّذِیْنَ قَتَلُوْا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًابِغَیْرِعِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا عَلٰی مَارَزَقَہُمُ اللّٰہُ افْتِرَاء عَلَی اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَاکَانُوْا مُہْتَدِیْن﴾۴۲؎ ’’ یقیناً خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت ونادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو اللہ پر افتراء پروازی کر کے حرام ٹھیرالیا۔یقیناً وہ بھٹک گئے اور ہر گز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘ مزید فرمایا: ﴿وَلَاتَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاق نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْ اِنْ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیْرًا﴾۴۳؎ ’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ہم انہیں بھی رزق دیں اور تمہیں بھی۔درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔‘‘ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’من کانت لہ أنثی فلم یئدہا ولم یؤثر ولدہ علیہا(یعنی الذکور)أدخلہ اللّٰہ الجنۃ‘‘۴۴؎ ’’جس کی بیٹی ہو اور اس نے انہیں زندہ درگورنہ کیاہو اور بیٹے کوبیٹی پرترجیح نہ دی ہوگی تواللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ تودلیل خطاب سے یہ مفہوم ملتاہے کہ اس کے برعکس عمل کرنے والے کوجنت سے محروم کردیاجائے گا۔‘‘ |