جملۃ الشریۃ وحیافی کرامۃ اعضاء ہذا لمجمع فلسنادوالی التصریح بانہ ولکن جدال طویل وعفیف کان الجواب ایجابتا ولکن باکثریۃ فلیلۃ‘‘۲۴؎ ٭ محمدجمیل بہیم زیدی لکھتے ہیں: ’’عیسائی عورت کونجاست کی پوٹ،سانپ کی نسل،منبع شر برائی کی جڑ،جہنم کادروازہ وغیرہ کے القابات سے یاد کرتے تھے۔‘‘۲۵؎ بڑے بڑے راہب اپنی ماں تک سے ملنا اوراس کے چہرے پرنظرڈالنامعصیت سمجھتے تھے۔۲۶؎ ہندومت میں بیوی کاعزت واحترام سنسکرت میں لڑکی کودوہتر(دورکی ہوئی)اوربیوی کوپتن(مملوکہ)کہاجاتاہے۔۲۷؎ ٭ معین الندوی ندوی لکھتے ہیں: ’’ہندووں کے اخلاقی حالات بھی اتنے روبہ زوال تھے۔کہ محرمات تک سے تمتع بھی کارثواب سمجھاجاتاتھا۔عصمت کی کوئی قدروقیمت نہ تھی۔بڑے بڑے ذی وجاہت امراء کی عورتیں جامئہ عصمت اتار پھینکتی تھیں۔‘‘۲۸؎ علاوہ ازیں عورتوں کی عصمت اس قدر ارزاں تھی کہ ہندوؤں کے ہاں آٹھ قسم کے نکاح تھے۔ 1۔ ابراہیم 2۔دیو 3۔آرش 4۔برجاہت 5۔آسرا 6۔گاندھاب 7۔راکش 8۔پیشاج دولہا دولہن دونوں کامل،برہمن پورے فاضل دھارمک اورنیک سیرت ہوں۔انکاباہم رضامندی سے نکاح ہونا ابراہیم کہلاتا ہے۔ بڑے نگینہ میں عمدہ طورپریگیہ کرتے ہوئے کو زیورپہنی ہوئی لڑکی دینا،دیو دوتمھا سے کچھ لے کر دواہ ہوتا۔ آرش دونوں کا بیاہ درہم کی ترقی کے لئے ہونا۔پرجاہت دولہا اور دولہن کوکچھ دے مہربیاہ کرنا آلبر بے قاعدہ،بے موقع کسی وجہ سے دولہا،دولہن کامرضی باہم میل ہونا۔ گاندھرب لڑائی کرکے جبراً یعنی چھپن جھپٹ یافریب سے لڑکی حاصل کرنا۔ راکش سوئی ہوئی یاشراب وغیرہ پی کربے ہوش ہوئی یاپاگل لڑکی سے بالجبر ہمبستری ہو۔پیشاج پیاہ کہلاتاہے۔ نیوگر۔نکاح کے بعد اگر کسی وجہ سے اولاد نہ ہو توہندوؤں کے ہاں اس کیلئے بھی ایک قانونی راستہ ہے۔۔۔(یعنی اولاد حاصل کرنے کا) جس کونیوگ کہاجاتاہے۔اولاد نہ ہونے کی صورت میں خبر وغیرہ کے حکم سے عورت رشتہ داریادیورسے حسب دلخواہ اولاد حاصل کرے۔۲۹؎ مجموعی اعتبارسے عورت جن خصلتوں کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ یہ تھیں۔ تقدیر،طوفان،حوت،جہنم،زہر،زہریلے سانپ اوران میں سے کوئی اس قدرخراب نہیں جتنی عورت خراب ہے۔۳۰؎ آریہ دھرم کے ہاں آریہ دھرم میں بیوی کااتنا بھی احترام نہیں کہ اس کے محرم اس سے شادی رچالیتے ہیں۔بلکہ آریہ دھرم میں عورت بیک وقت متعدد حقیقی بھائیوں سے شادی کرسکتی ہے۔۳۱؎ |