ہمارے ہاں مردوں کی یہ عادت ہے کہ وہ لڑائی جھگڑے کے وقت اپنی بیویوں کوگالیاں دیتے ہیں۔فضول بکواس کرتے ہیں ان پر الزام تراشی کرتے ہیں۔اور ان کودوسروں کے سامنے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ یادرہے کہ یہ بہت بڑاگناہ اورظلم ہے۔زمانہ جاہلیت میں بعض مرد اپنی بیویوں کوطلاق دیتے تھے اورپھرعدت ختم ہونے سے قبل ان سے رجوع کرلیتے تھے۔تاکہ ان کوتنگ کرسکیں اوران پرظلم کرسکیں اس پریہ آیب مبارکہ نازل ہوئی۔ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَاتُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فََقَدْظَلَمَ نَفْسَہ﴾۱۴؎ ’’اورتم اپنی بیویوں کوتنگ کرنے کے لیے نہ روکے رکھو تاکہ تم ان پرزیادتی کرو پس جس نے ایساکیااس نے اپنی جان پرظلم کیا۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری وصیت میں تین باتوں کی تاکیدفرمائی۔ان باتوں کی نصیحت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان لڑاکھڑا رہی تھی۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازپست ہوگئی۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔ ’’الصلاۃ الصلاۃ!اتقواللّٰه فیماملکت ایمانکم‘‘ ۱۵؎ ’’نماز نماز اورجوتمہاری ملکیت میں ہیں(یعنی غلام اوربیویاں)ان کے بارے میں اللہ کاتقوی اختیارکرو۔‘‘ مزید برآں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’استوصوا بالنساء فإن المرأۃ خلقت من ضلع وان اعوج شیء فی الضلع اعلاہ فان ذہبت تقیمہ کسرتہ وان ترکتہ لم ینزل اعوج فاستوصوا بالنساء‘‘۱۶؎ ’’عورتوں کے بارے میں مجھ سے وصیت حاصل کرلو بے شک عورتوں کوپسلی پیداکیاگیاہے۔اورپسلی میں سے ٹیڑھی اوپروالی پسلی ہوتی ہے۔اگرتم اس سیدھاکرناچاہوگے۔تواس کو توڑدوگے۔اوراگراس کو اس حال پرچھوڑ دو گے تووہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے بارے میں وصیت حاصل کرلو۔‘‘ 2۔عزت واحترام یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ عورت اوربیوی کے دل ودماغ میں اپنے شوہر کی محبت وعقیدت اس وقت ہی راسخ ہوتی ہے جب اس کاشوہر اس سے عزت واحترام اورحسن اخلاق کامظاہرہ کرتاہے۔گویا مذکورہ تسلیم شدہ اصول کاغیراسلامی مذاہب وادیان میں فقدان پایاجاتاہے۔جس کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں۔ یونانیوں کے ہاں یونان عورتوں کے بارے میں بہت برا عقیدہ رکھتے ہیں۔اوراسے کسی قسم کے احترام کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔گویاان کاعقیدہ تھا: ’’آگ سے جل جانے اورسانپ کے ڈسنے کاعلاج توممکن ہے لیکن عورت کے شرکامداوا محال ہے۔‘‘۱۷؎ بحیثیت مجموعی باعصمت یونان بیوی کامرتبہ پست تھا اس کی زندگی مدت العمر غلامی میں بسرہوتی تھی۔لڑکپن میں اپنے اپنے والدین کی،جوانی میں اپنے شوہر کی اوربیوگی میں اپنے فرزندوں کی…انتھینیاکاقانون۔یتیم لڑکیوں پرخاص طورپرمہربان تھا۔لیکن ان باتوں کے سوا کوئی حقوق نسواں کی تائید میں نہیں پیش کرسکتی۔افلاطون نے بلاشبہ مردوعورت کی مساوات کادعوی کیاتھالیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی عملی زندگی اس سے بالکل غیرمتاثررہی۔۱۸؎ |