لئے اس پر بغض کا انداز ہوگا اس میں خاوندکی طرف سے عدم اعتبار کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے حضرت ثابت سے یہ نہ پوچھاکہ تم اس کو ناپسندکرتے ہو۔جب عورت نے بتایا میں اس کوناپسندکرتی ہوں۔۴۶؎ طہر اورحیض میں خلع کاجواز خلع طہر اورحیض دونوں میں جائز ہے۔اس کاوقوع کسی وقت کے ساتھ مقیدنہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ﴾۴۷؎ ’’توان دونوں پرحرج نہیں ہے اس چیزمیں جو عورت فدیہ دے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت ثابت بن قیسؓ کی بیوی کے خلع کے بارے میں حکم مطلق رکھاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سوال نہیں کیاکہ اب حالت کیاہی۔(حیض کے دن ہیں یاطہر)حیض کا وجود عورتوں کی نسبت کوئی نادر چیزنہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’احوال کے فیصلوں میں طلب تفصیل کو ترک کرنا قیام احتمال کے باوجود بھی بات کے عموم کے درجہ میں اتر آتاہے‘‘۔ دورجاہلیت میں خلع حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھاہے: ’’إنہ أول خلع کان فی الدنیا ان عامربن الظرب زوج ابنتہ من ابن أخیہ عامربن الحارث بن الظرب فلمادخلت علیہ نفرت منہ فشکا إلی أبیہا فقال لا اجمع علیک فراق اہلک ومالک وقد غلتہا منک اعطیتہا قال فزعم العلماء ان ہذا کان اول خلع فی العرب‘‘۴۸؎ ’’کہ دنیامیں سب سے پہلے خلع جو واقع ہواہے۔وہ عامربن حارث بن ظرب کاخلع تھاکہ اس نے بیٹی کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے عامربن حارث بن ظرب سے کردی۔جب اس نے اس سے وطی کی تولڑکی کو لڑکے سے نفرت ہوگئی۔تواس نے اپنے باپ کو شکایت کی تواس نے(لڑکے سے)کہاکہ میں اپنی بیٹی کی زندگی تیرے ساتھ بسرہوتی نہیں دیکھ سکتا۔لہذا میں نے تجھ سے جو تونے مہر وغیرہ دیاتھا(وہ واپس دیتے ہوئے) خلع طلب کرلیاہے۔‘‘ علماء کرام کی رائے ہے کہ یہ عرب میں سب سے پہلا خلع تھا۔جوواقع ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورعہدخلفاء راشدین میں خلع کے مقدمات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہدمیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں خلع کامقدمہ ہواتھا۔وہ ثابت بن قیس بن شماش کی دو بیویوں کاتھا۔ان کی ایک بیوی جمیلہ بنت سلول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئی اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور اس کے(ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ)سرکو کوئی چیزجمع نہیں کرسکتی۔میں نے خیمے کے پردے کو اٹھایااوردیکھاکہ وہ چندآدمیوں کے ساتھ آرہاتھا۔میں نے دیکھاکہ وہ ان میں سے،سب سے کالا،پست قد اوران میں سے سب سے زیادہ بدشکل تھا۔میں اپنے خاوندمیں کوئی اخلاقی اورشرعی عیب نہیں دیکھتی البتہ مجھے اس کی شکل سخت ناپسندہے۔جب وہ میرے پاس ہوتاہے تومیرا دل چاہتاہے کہ میں اس کے منہ پرتھوک دوں لیکن مجھے اللہ کاخوف مانع ہے۔۴۹؎ |