نکاح سے نفرت دلانا ہے، تاکہ وہ بے حیائی سے باز رہیں۔ اسی خاطر زنا اور شرک کو ملا کر بیان کیا گیا ہے۔ اسی بنا پر (امام) مالک نے بے حیائی میں مشہور لوگوں کے ساتھ رشتے ناطے کو ناپسند کیا ہے۔ ان کے بعض اصحاب نے بیان کیا ہے، کہ (مالکی) مذہب میں عورت اور اس کے اولیاء کو فاسق کے ساتھ کیے ہوئے نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘[1]
۶: مولانا ثناء اللہ امرتسری اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یعنی مؤمن پر حرام ہے، کہ وہ زانیہ سے زانیہ ہونے کی حالت میں نکاح کرے اور ایمان والی عورت پر زانی سے زانی ہونے کی حالت میں نکاح کرنا حرام ہے، کیونکہ ایسا کرنے میں بے حیائی کا پھیلاؤ ہے۔‘‘[2]
۷: سیّد قطب رقم طراز ہیں:
یہ بُری کرتوت ہے، جو ارتکاب کرنے والے کو اہلِ اسلام کی جماعت سے الگ کردیتی ہے اور ان کے ساتھ باہمی تعلقات منقطع کردیتی ہے۔ صرف یہ معاشرتی سزا ہی کوڑوں کی سزا کی طرح دردناک یا اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے۔[3]
۸: شیخ سعدی نے قلم بند کیا ہے:
’’یہ زنا کی کمینگی اور گھٹیا پن کا بیان ہے، یہ بدکاری کرنے والے، اس کے ساتھیوں اور اس کے ساتھ میل جول رکھنے والوں کے دامن کو داغ دار کردیتا ہے۔ یہ (زنا کا وہ اثر ہے، جو) باقی گناہوں کا نہیں ہوتا۔‘‘[4]
|