- اس بات کا احتمال ہے، کہ [رجم] کے ساتھ [کوڑے لگانے کا حکم] راویان کی نظر میں اس قدر واضح تھا، کہ انھوں نے اس کے ذکر کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔[1]
- امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعدد سال بعد شادی شدہ عورت [شراحہ] کو سزا دیتے ہوئے دونوں سزاؤں کو جمع کیا۔ انھوں نے جمعرات کے دن اسے کوڑے لگائے اور فرمایا: [میں نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں] [2] جمعتہ المبارک کے دن سنگسار کیا اور فرمایا: ’’[میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رجم کیا ہے]‘‘ [3]
علامہ شوکانی اس واقعہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ان ایسی (عظیم) شخصیت اور وہاں موجود دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم پر [رجم اور کوڑے جمع کرنے] کو منسوخ کرنے والی دلیل کیسے مخفی رہی؟‘‘[4] وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
۷: حدیث شریف میں [غیر شادی شدہ] اور [شادی شدہ] کے متعلق بیان کردہ احکام مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہیں۔[5]
۸: شادی شدہ بدکار لوگوں کو رجم کرنے پر امت کا اجماع ہے۔ علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
’’فِيْ وَجُوْبِ الرَّجْمِ عَلَی الزَّانِيْ الْمُحْصِنِ، رَجُلًا کَانَ أَوِ امْرَأَۃً۔ وَہٰذَا قَوْلُ عَامَّۃِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنَ الصَّحَابَۃِ،
|