ب: شادی شدہ بدکار لوگوں کو صرف رجم کیا جائے، کوڑے نہ لگائے جائیں، حضراتِ صحابہ میں سے ابوبکر، عمر اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور جمہور علمائے امت اسی کے قائل ہیں۔[1]
ان کا استدلال یہ ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز، جہینہ قبیلہ کی عورت اور اپنے خاوند کے ہاں مزدوری کرنے والے شخص کے ساتھ بُرائی کا ارتکاب کرنے والی عورت، ان تینوں کو صرف رجم کرنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ کوڑے مارنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر کوڑے مارنے کی شرعی حیثیت ہوتی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خاموش نہ رہتے۔
اسی رائے کی تائید میں یہ بھی کہا گیا ہے، کہ دونوں سزاؤں کو جمع کرنا ابتدا میں تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔[2]
پہلی رائے کی تائید میں کہا گیا ہے، کہ
- تینوں واقعات کا متاخر ہونا ثابت نہیں۔ کسی واقعہ کے [ناسخ] قرار دینے سے پہلے، ان کا [متاخر ہونا] ثابت کرنا ضروری ہے۔[3]
- ان کے اشارہ کردہ تینوں واقعات کے حوالے سے یہ کہنا، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، درست نہیں، کیونکہ کسی چیز کے [ذکر نہ کرنے] سے اس [چیز کی نفی] ثابت نہیں ہوتی۔[4]
|