آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں یا بت بنے ہوئے دیکھے اور ان کے ہاتھوں میں فال گیری کے تیر تھے [یہ تیر مشرکینِ مکہ فال نکالنے کے لیے استعمال کرتے تھے ]
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تیر دیکھے تو فرمایا: اللہ تعالیٰ مشرکینِ مکہ کو ہلاک کرے، کیونکہ ان لوگوں نے میرے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اتنی بڑی تہمت لگائی ہے کہ وہ فال گیری کرتے تھے۔ ان میں سے ایک شخص جس کا نام عَمرو بن لحیّ تھا،جس نے سب سے پہلے اہلِ مکہ کو شرک و بُت پرستی کی دعوت دی تھی۔ اس نے قومِ نوح علیہ السلام کے زمانے میں جو نیک اور باوقار لوگ تھے، جن کا ذکر سورت نوح میں ہے اور ان کے نام کچھ اس طرح تھے: ’’وَد، سُواع، یَعُوق، یَغوُث، نَسْر‘‘ ان صالحین کے بت بنا کر ان کو اللہ کا سفارشی اور اپنا دوست بنا لیا تھا۔
مشرکینِ مکہ تو شرک کرتے ہوئے بھی آج کے کلمہ گو مشرکوں سے اچھے تھے، کیونکہ ان لوگوں نے جن کو سفارشی بنایا تھا، وہ انبیا یا فرشتے تھے یا پھر وہ نیک و باوقار لوگ تھے جن کے تقوے اور طہارت کے بارے میں انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ حقیقت میں نیک اور متقی وپرہیزگار تھے، وہ تو ان ہستیوں کو اولیا مانتے تھے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً اپنا مقرّب بنایا ہے۔ اس کے باوجود وہ لوگ مشرک تھے، کیونکہ انھوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، جب کہ اللہ زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ پاک ہے اور آج کے مسلمان جن لوگ کو اللہ تعالیٰ کا سفارشی اور اپنا دوست بنائے ہوئے ہیں، ان کانام سنو تو ہنسی آتی ہے، لیجیے سنیے! کسی کا نام ’’گھوڑے شاہ [اجمیر شریف ]، طوطے شاہ [، گمنام شاہ [ آصف نگر ]، پتنگ شاہ، [تالاب کٹا] ۔چینی شاہ۔ ایسے ناموں پر ہنسی نہیں آتی بلکہ شرم آتی ہے کہ آج ہم نے ایسے لوگوں کو اللہ کا دوست، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا ہوا ہے۔ جو اپنی مدد آپ کرنے پر قادر نہ ہوں وہ بھلا دوسروں کی مدد کیا کریں گے؟ ؎
جو خود محتاج ہو دوسرے کا
بھلا اُس سے مدد کا مانگنا کیا
اگر کسی نے وسیلہ بنانا ہے تو خلوصِ نیت کے ساتھ کیے گئے اعمالِ صالحہ کے وسیلے کے ساتھ دُعا و التجا کرے تو یہ جائز ہے، لیکن اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ذرا بھی خلاف جانے کو کفر سمجھتے تھے جس کے واقعات معروف ہیں۔ آج ہم سب اپنے آپ کو بہت
|