Maktaba Wahhabi

199 - 611
بڑے مسلمان کہلواتے ہیں، لیکن عمل سے کوسوں دور ہیں۔ آج جسے ہم اسلام سمجھ کر اس عمل کر رہے ہیں، یہ وہ اسلام نہیں جو شہرِ مدینہ سے صحابہ علیہم السلام لے کر نکلے تھے۔ اسلام ہم تک پہنچا تو ضرور ہے لیکن عرب سے لے کر جو بھی راستے میں ملتا گیا اسے بھی ہم نے اسلام میں شامل کرلیا، اس طرح دینِ اسلام کی بنیاد ہی ختم ہوگئی اور ہم اس خوش فہمی میں ہیں کہ یہی اسلام ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے سچ ہی کہا تھا: ؎ رہا شرک نہ باقی وہم و گماں میں…کرے غیر اگر بت کی پوجا تو کافر جھکے آگ پر بہرِ سجدہ تو کافر….مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھا دیں….یہ بدلا گیا آکر ہندوستان میں کواکب میں مانیں کرشمہ تو کافر….جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں….نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں یہ دن رات مزاروں پہ نذریں چڑھائیں….نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے ہمیشہ سے تھا جس یہ اسلام نازاں….رہا شرک نہ باقی وہم و گماں میں شہیدوں سے جا جا کے مانگے دعائیں….اسلام بگڑے نہ ایمان جائے وہ دولت بھی آج کھو بیٹھے مسلماں….یہ بدلا گیا آ کے ہندوستان میں اسلام آیا لیکن اپنی اصلی حالت سے بدل جانے کے بعد۔ تاریخی اعتبار سے یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ پا ک و ہند میں دعوتِ اسلامی کا آغار خواجہ معین الدین چشتی نے کیا، تاریخی اعتبار سے یہ بات بالکل غلط ہے۔ اسلام تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تقریباً ۲۲ ہجری میں جہاں آج کل ہندوستان کا شہر ممبی ہے، اس کے ساحلی علاقہ تھانا میں داخل ہوچکا تھا، آپ ایک نظر اس کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کریں۔ یہ تھے مشرکینِ مکہ کے عقائد اور اعمال کی نسبت سے کچھ حقائق جو میں نے آپ سب کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ اس لیے کہ کسی چیز کا علم رکھتے ہوئے اسے چھپانا یا پھر کسی کو آگاہ نہ کرنا یہ دین میں خیانت ہے، اب آپ ان حقائق کو سامنے رکھیں اور اپنے اعتقادات اور اعمال کا جائزہ لیں کہ کیا ہم راہِ حق پر ہیں یا نہیں؟
Flag Counter