ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی دُعا کو قبول فرمایا اور صحت کے ساتھ مال و اولاد پہلے سے دو گنا عطا فرمائے۔ سورۃ المومنون (آیت: ۱۱۸) میں دعاے رسول یوں مذکور ہے:
{رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ}
’’اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور (مجھ پر) رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اُن کی پکار کو کیسے سنا؟ جب انھوں نے اپنے رب کو آواز دی، اپنے اللہ کو پکارا کہ یااللہ تیرے سوا کوئی بھی مجھے مشکل سے نکال نہیں سکتا تو اللہ نے اُن کی پکار کو سُن لیا۔ یہ تو اللہ کے نبی تھے، دوسری طرف اللہ کا دشمن ہے جس کی بیوی اپنے اللہ کو پکار رہی ہے، اس کا ذکر قرآنِ کریم کی سورۃ التحریم (آیت: ۱۱) میں ہے:
{ وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ}
’’ اور مومنوں کے لیے (ایک) مثال (تو) فرعون کی بیوی کی بیان فرمائی کہ اس نے اللہ سے التجا کی کہ اے پروردگار! میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے اعمال سے نجات بخش اور ظالم لوگوں کے ہاتھ سے مجھ کو مخلصی عطا فرما۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کی پکار بھی سُنی اور مُراد بھی پوری کی۔ اب آپ یہ بتائیں کہ انھوں نے اپنے اور اپنے رب کے درمیان کس کو وسیلہ یا سفارشی بنایا ہے؟ کسی کو بھی نہیں، سیدھا اپنے اللہ سے مانگا ہے جو سب کی حاجت پوری کرنے والا ہے۔
مشرکینِ مکہ اللہ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اللہ کے یہاں سفارشی ہی بناتے تھے۔ اب وہ کس کو سفارشی بناتے تھے؟یہ جاننا بے حد ضروری ہے، کیونکہ وہ لوگ اللہ کے علاوہ جنھیں سفارشی مانتے تھے وہ عام لوگ نہ تھے وہ تو انبیاء، ملائکہ، صالحین اور ایسی شخصیتوں کو سفارشی بناتے تھے جن کے بارے میں ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ نیکو کار، پرہیز گار اور متقی ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا تو خانہ کعبہ کے اندر
|