نے اُن کو معاف کردیا۔ اس طرح اُن سے عذاب ٹال دیا۔
اب آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تقدیر کا لکھا ہوا نہیں ٹل سکتا، یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن جب بندے اپنے رب سے سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ اُس کے نتیجے میں آیا ہوا عذاب بھی ٹال دیتا ہے۔
جب حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینویٰ کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر جانے کے لیے کشتی میں بیٹھ گئے۔ کشتی اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ جب خاصی دور چلی گئی تو اچانک زور کی آندھی چلنا شروع ہوگئی اور کشتی ہچکو لے کھانے لگی اور پانی کی لہریں بلند ہوکر کشتی میں گرنے لگیں۔ اس طرح کشتی میں پانی داخل ہونے لگا۔ جب پانی کی مقدار کافی ہوگئی تو اس بات کا خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں کشتی ہی نہ غرق ہوجائے۔ مسافروں کو ملاح نے مشورہ دیا: اگر جانوں کو بچانا ہے تو پھر تمام اشیا کو سمندر میں پھینک دیں، لہٰذا ہر چیز کو پھینک دیا گیا۔ اس کے باوجود اسے لگتا تھا کہ کشتی کسی وقت بھی الٹ سکتی ہے۔ انھوں نے سوچا اب تو باقی انسان ہی رہ گئے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ لوگوں کو سمندر میں پھینک دیا جائے تو باقی لوگوں کی زندگی بچ سکتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ سب سے پہلے کس کو پھینکا جائے؟کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ قرعہ اندازی کی جائے، جب قرعہ اندازی ہوئی تو قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکلا۔ حضرت یونس علیہ السلام بڑے نیک سیرت تھے اور کشتی والے انھیں بڑا پسند کرتے تھے۔ لہذا انھوں نے قرعہ دوسری بار نکالا۔ پھر بھی آپ کے نام نکلا۔ مگر مسافروں نے آپ کو منع کردیا۔ انھوں نے کہا: ایک بار پھر نکالتے ہیں۔ اللہ کی قدرت تیسری مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی تب بھی قرعہ آپ کے نام نکلا۔ اب حضرت یونس علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے۔ چنانچہ انھوں نے سمندر میں چھلانک لگادی۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے بحیرہ روم کی ایک بڑی مچھلی بھیج دی اور وہ آپ کو نگل گئی۔ مچھلی کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ یونس ( علیہ السلام ) کی حفاظت کرے۔ ان کا گوشت نہیں کھانا، کیونکہ یونس علیہ السلام اس مچھلی کا رزق نہ تھے۔ پھر اللہ کے حکم سے مچھلی آپ کو لے کر تمام سمندروں کا چکر لگانے اور گہرے پانیوں میں گھومنے لگی۔ جب آپ مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گئے تو آپ نے سوچا کہ آپ فوت ہوچکے ہیں، لیکن جب اپنے اعضا کو حرکت دی تو جان گئے کہ آپ ابھی زندہ تھے۔ چنانچہ آپ اللہ کے لیے
|