کہ اے میرے بندو! ’’تم مجھے پکارو میں تمھاری پکار کا جواب بھی دیتا ہوں۔‘‘
کیونکہ میں تمھارے اتنا قریب ہوں کہ اگر تم مجھے دل میں بھی پکارو تو وہ پکار تمھاری صرف میں ہی سنتا ہوں کیونکہ میں تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور میں ہی تمھاری مرادیںبھی پوری کرتا ہوں۔ اس بات کا ذکر قرآنِ کریم کے بہت سے مقامات پر کیا گیا ہے کہ جب بھی اللہ کے نیک بندوں نے اپنے رب کو پکارا، اللہ نے اُن کی پکار کو سُنا اور اُن کی مرادیں بھی پوری کیں، جس کی ایک دو دلیل ہم آپ کو بتاتے ہیں:
1. حضرت آدم اور اماں حوا i نے اپنے رب کو کیسے پُکارا اور کیا کہا؟ سورۃ الاعراف (آیت: ۲۳) میں ہے:
{ قَالَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ}
’’دونوں عرض کرنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ ‘‘
حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پیشمانی کا اظہار اور بارگاہِ الٰہی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق ہوگئے۔
2. حضرت یونس علیہ السلام نے کا واقعہ آپ نے قرآن میں پڑھا ہوگا۔ انھوں نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح پیغام آنے سے قبل ہی یہ امید قائم کرلی کہ ان کی دُعا کے نتیجے میں قوم پر عذاب آکر رہے گا،توحضرت یونس علیہ السلام نے نینوا والوں سے کہا: آنے والی صبح ہمارے لیے عذاب لے کر آئے گی۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آنے سے پہلے ہی انھوں نے نینوا کو چھوڑ دیا۔ ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد بستی کے لوگوں نے سوچا کہ ہم نے اُن کی بات نہ مان کر غلطی کی ہے۔ اب جلد ہی ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ جب انھیں عذاب کے آثار نظر آئے تو وہ سخت نادم ہوئے، اللہ سے ڈر گئے اور اسلام لے آئے، اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے لگے۔ جب انھوں نے سچے دل سے توبہ کی تو اللہ
|