قسمیں کھاتے تھے، مگرپھر بھی وہ مشرک اور آج کے مسلمان ایسی قسمیں کھاتے ہیں جس سے صاف طور پر شرک ظاہر ہوتا ہے، مگر کہنے کو ہم مسلمان ہیں۔۔۔؟
اگر آدمی کسی معاملے میں قسم کھا رہا ہے یا تو وہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے یا پھر کسی معاملے میں اس کو گواہ بنانے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ جب کبھی گواہی کی ضرورت ہو تو جس کی قسم کھائی گئی ہے، ضروری ہے کہ وہ حاضر رہے، یعنی ہمیشہ رہنے والا ہو۔
آج کا مسلمان کہتا ہے:ہرے جھاڑ کے نیچے ہوں، جھوٹ نہیں بول رہا۔ کوئی کہتا ہے: انگار ہاتھ میں ہے، جھوٹ نہیں بول رہا۔ کوئی کہتا ہے: رزق یا کھا نا ہاتھ میں ہے، جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ مجھے میری ماں کی قسم، میرے بیٹے کی قسم، تیری قسم،تیرے سر کی قسم۔ یہ قسم کھانا نہیں تو اور کیا ہے؟
آج کے مسلمان ایسی چیزوں کو گواہ بنا رہے ہیں جو سب فنا ہونے والی ہیں۔ اگر قسم کھانے کی ضرورت پڑے تو اس ذات کی قسم کھائیں جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور وہ گواہی کے لیے کافی ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
{وَکَفَیٰ باِللّٰہِ شَھِیْدًا} ’’اور حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔‘‘
کیونکہ ظاہر اور باطن کے حال و ہی جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو مخلوقات کی قسم کھانے سے منع کیا ہے، کیونکہ غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے، مگر کافر و مشرک اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا اقرار کرتے تھے، وہ سب چیزوں کا مالک اللہ ہی کو مانتے تھے، اس کے لیے نمازیں بھی پڑھتے، روزے بھی رکھتے اور حج و عمرہ بھی کرتے بلکہ حُجاج کی ضیافت اور خدمت بھی کرتے تھے، مشکلات میں خالص اللہ ہی کو پکارتے اور قسمیں بھی اللہ ہی کی کھاتے تھے۔
اور تو اور کوئی تحریر بھی لکھتے تو شروع میں اللہ ہی کا نام لکھتے، اتنے سب کچھ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو کافرومشرک قرار دیا، اُن سے جنگیں لڑی گئیں، ان کے مال کو مالِ غنیمت قرار دیا گیا، ان کی عورتوں اور بچوں کو باندی اور غلام بنایا گیا، آخر کیوں؟ وہ کون سا ایسا گناہ کر رہے تھے؟ ان کا جُرم کیا تھا؟ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو کافر و مشرک قرار دیا؟ آیئے! دیکھیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا قرآن کیا کہتا ہے؟ سورۃ الزمر (آیت: ۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
{ اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُھُمْ
|