Maktaba Wahhabi

191 - 611
جب انھیں پوچھا جائے کہ بہن اب بچہ کیسا ہے؟ تو یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے فوراً کہیں گے کہ بابا جی کے دربار میں گئے تھے، بابا کا کرم ہوگیا ہے۔ اگر بچے کی وفات ہو گئی تو کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی! اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کرم نہیں کرتا۔ نعوذ باللہ! صرف بزرگ کرم کرتے ہیں۔ نہیں میری مسلمان بہنوں اللہ تعالیٰ تو بہت کریم و رحیم ہے، اللہ اپنے بندوں کو دکھ نہیں دیتا، بلکہ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں کا کیا ہوا عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ مسلمانوں نے اپنے بچوں کے نام بھی ان بزرگوں کے ناموں پر رکھے ہیں۔ کسی کا نام نبی بخش، ولی بخش، پیر بخش، خواجہ بخش، غلام رسول، غلام حسین، عبد النبی، غلام غوث ہے یا پھر غلام محی الدین۔ غلام کیا ہے (غلام کا معنی ہوتا ہے بندہ) جب کہ ہم سارے کے سارے تو اللہ کے بندے ہیں لیکن ان لوگوں کے عقائد ملعون شیطان بگاڑ چکا ہوتا ہے اس لیے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسانات کو پیروں، بزرگوں اور ولیوں کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ راضی ہوگا؟ پھر کیوں نہ ہم کہیں کہ آج کے کلمہ پڑھنے والوں سے تو وہ بہتر تھے اور یہی نہیں کہ وہ صرف اللہ کو مانتے تھے بلکہ وہ اپنے بچوں کے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن بھی رکھتے تھے، چنانچہ تاریخِ گواہ ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عبد اللہ تھا۔ جو حُجاج کی ضیافت کیا کرتا تھا، اس کا نام عبد اللہ بن جدعان تھا اور جب کبھی ضرورت پڑتی تو وہ اللہ کی قسم بھی کھاتے تھے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے سورت فاطر (آیت: ۴۲) میں فرمایاہے: { وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جَآئَ ھُمْ نَذِیْرٌ لَّیَکُوْنُنَّ اَھْدٰی مِنْ اِحْدَی الْاُمَمِ فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَھُمْ اِلَّانُفُوْرَا} ’’ اور یہ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہدایت کرنے والا آئے تو یہ ہر ایک امت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں گے، مگر جب ان کے پاس ہدایت کرنے والا آیا تواس سے ان کو نفرت ہی بڑھی۔‘‘ وہ لوگ جب بھی قسم کھاتے تو عموماً اللہ کے سوا کسی کی قسم نہیں کھاتے تھے، بلکہ اللہ ہی کی
Flag Counter