پہنچا دیتا ہے تو بعض انصاف پر قائم رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو عہد شکن اور ناشکرے ہیں۔‘‘
اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب وہ سمندروں میں کشتیوں کا سفر کرتے اور موجیں اُن پر چھا جاتی اور وہ اپنی جانوں پر خطرہ محسوس کرتے تو مدد کے لیے خالص اللہ ہی کو آواز دیتے اور جب اللہ تعالیٰ انھیں نجات دے دیتا تو پھر سے شرک کرنے لگتے، یعنی خطرہ محسوس کرتے تو کس کو پکارتے؟ خالص اللہ ہی کو پکارتے۔۔۔!
یہ پکارنا کیا ہے؟ یہ عبادت ہی تو ہے۔ اسی ضمن میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی آتا ہے، جو ابوجہل کے بیٹے تھے۔ ان کا اسلام قبول کرنے کا سبب بھی سمندر کی موجوں میں صرف اللہ کو پکارنا ہی بنا تھا۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انھیں قبولِ اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔
ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے، تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لیے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب سے دعائیں کرو، اس لیے کے یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہاں سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو اس کے باہر بھی صرف وہی نجات دے سکتا ہے۔ اسی وقت انھوں نے اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا، یعنی مسلمان ہوجاؤں گا، چنانچہ وہاں سے نجات پاکر انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔[1]
آج کے مسلمانوں سے وہ مشرکین پھر بھی بہتر تھے کیونکہ آج ہم خوشی و مسرّت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا تو دور مشکلوں اور پریشانیوں میں بھی اللہ کے علاوہ غیروں کو پکارتے ہیں۔ اگر ہمارا بچہ بیمار ہوجائے، چاہیے تو یہ تھا کہ دوا کے ساتھ ساتھ اپنے اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعائیں کرتے، توبہ واستغفار کرتے، اپنے اعمال کا جائزہ لیتے، کہیں ہمارے اعمال میں تو کمی نہیں، مگر نہیں، ایسا کرنے کے بجائے سیدھے کسی مرشد مُلّا یا پھر کسی ڈھونگی پاکھنڈی کے جال میں پھنس کر اپنا عقیدہ برباد کرلیتے ہیں۔
|