Maktaba Wahhabi

189 - 611
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام تمھاری طرح مشرک نہیں تھے، بلکہ وہ تو یک سو ہو کر اپنے اللہ کی عبادت کرنے والے تھے، جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورت آل عمران (آیت: ۹۵) میں فرمایا ہے: { قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ} ’’کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرما دیا پس دینِ ابراہیم کی پیروی کرو جو سب سے بے تعلق ہو کر ایک (اللہ ہی) کے ہو گئے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘ مشرکینِ مکہ کو آج کے ان کلمہ پڑھنے والوں سے بہتر ہی کہنا چاہیے، کیونکہ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے تو خالص اللہ ہی کی عبادت کرتے۔ اس لفظ پر آپ غور کریں کہ خالص اللہ ہی کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن آج اگر آپ جائزہ لے کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج کے مسلمان کی زبان پر الفاظ کیا ہیں، جب یہ سواری پر چڑھ رہا ہو تو کہے گا: یا علی مدد۔ کوئی کہتا ہے: یا رسول اللہ مدد۔ کوئی یا غوث المدد کہتا ہے۔ جب بھی کہیں گے شرکیہ کلمات ہی کہیں گے۔ ہم جو بات آپ کو بتانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ کبھی کبھی خالص اللہ کی بھی عبادت کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ان کا ذکر سورۃ العنکبوت (آیت: ۶۵) میں یوں فرمایا ہے: { فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ} ’’پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اُسی کی عبادت کرتے ہیں لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچادیتا ہے تو فوراً شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔‘‘ سورت لقمان (آیت: ۳۲) میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے: { وَ اِذَا غَشِیَھُمْ مَّوْجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ فَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوْرٍ} ’’ اور جب ان پر (دریا کی) لہریں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو اللہ کو پکارنے (اور) خالص اُس کی عبادت کرنے لگتے ہیں پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر
Flag Counter