’’(اے نبی!) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات جو (بالکل) سچے ہیں پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے (اللہ کی راہ میں) قربانی دی تو ایک کی قربانی تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل نے ہابیل سے) کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ اُس وقت اس(ہابیل) نے کہا کہ اللہ صرف پرہیز گاروں ہی کی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔‘‘
ہابیل بہت پرہیز گار اور صبر والا تھا۔ اس کا اللہ پر ایمان اور توکل تھا، اسی تقوے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانی کو قبول فرمالیا تھا۔
مشرکینِ مکہ مسجدِ حرام [خانہ کعبہ ]کی تعمیر بھی کرتے تھے اور ہر قسم کی نیکی کا کام بھی کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو جو دعوت دی، وہ کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ نے کس کام کا حکم دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو؟ یہی نہ کہ اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کو کہہ دیں کہ ایک اللہ کو اپنا خالق و مالک مانو، اس کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کیا سچ کہا ہے کہ ملتِ ابراہیمی کی پیروی کرو، کیونکہ وہ مشرکین میں سے نہیں تھے، بلکہ خالص ایک اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث ہی اس لیے کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملتِ ابراہیمی کی تجدید کریں اور جو گندگی [شرک و بدعات اور خرافات ] کا انبار ان مشرکینِ مکہ نے دینِ ابراہیمی کے نام پر لگایا ہے، اس کو نکال پھینکیں اور جو اللہ کا گھر [کعبۃاللہ ] دونوں باپ اور بیٹے خلیل و ذبیح نے مل کر بنایا ہے، اس کو آباد کریں اور اپنا دعوتِ دین کا کام یہیں سے شروع کریں۔ وہ دعوتِ حق کیا تھی؟اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، صرف ایک اللہ کو مانو، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کرو، بتوں کی پوجا چھوڑدو، خالص اللہ کو پکارو، اس کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی دعوت دی تو ان لوگوں نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو کون سا دین لے کر آیا ہے؟ تیرے باپ اور دادا نے تو ایسا دین نہیں مانا تھا اور جس دینِ ابراہیمی کی تم بات کر رہے ہو، اس پر تو ہم ہیں، ہم لوگ خانہ کعبہ کی تعمیر کرنے اور اس کی صفائی کرنے والے، حاجیوں کو کھانا کھلانے اور زم زم پلانے والے اور ان کی ضیافت کرنے والے ہیں، لہٰذا دینِ ابراھیمی پر تو ہم ہیں۔
|