Maktaba Wahhabi

187 - 611
{اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ} [التوبۃ: ۱۹] ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیاہے (یعنی اپنے آپ کو ان کے برابر سمجھتے ہو) جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتاہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے؟ یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو قبول نہیں کیا، کیوں؟ یہ لوگ اللہ کے گھر کے خادم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ظالم کہا ہے۔ کیوں؟ جو کسی چیز کو اصلی جگہ سے ہٹاکر کہیں اور رکھ دے، اس کو ظالم کہا جاتا ہے۔ مشرکین کیا کرتے تھے؟ یہی نہ کہ جو عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے، وہ اپنے بنائے ہوئے معبودانِ باطلہ کے لیے بھی کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کو ظالم کہا ہے اور شرک کو ظلمِ عظیم ’’سب سے بڑا گناہ‘‘ قرار دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے بنو ہاشم یا ہاشمی کہلاتے ہیں تو کیا وہ سب کے سب جنت میں جائیں گے؟ ہر گز نہیں، کیونکہ وہاں بھی عمل کے حساب سے جنت ملے گی۔ اگر کام نیک کیے ہیں، اپنی زندگی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزار رہے ہیں اور آپ کے ہر کام میں رضاے الٰہی شامل ہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ جس جنت کا اللہ نے مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے، آپ اس کے وارث ہیں۔ اگرعمل میں مشرکوں کی مخالف نہ کی، نیت میں اخلاص للہ نہیں ہے تو پھر کوئی عبادت قبول نہیں ہے، کیونکہ جو بھی شرک و کفر کی حالت میں مرا، وہ دائمی جہنمی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ المائدہ (آیت: ۲۷) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ}
Flag Counter