Maktaba Wahhabi

186 - 611
قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ اگر قبول نہیں تو اجر و ثواب کی امید بھی نہ رکھیں۔ بلکہ آپ کا شمار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمانوں میں سے ہوگا۔ سورۃ الکوثر (آیت: ۲) میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے: {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} ’’تم اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔‘‘ مشرکین بتوں کی عبادت کرتے اور انہی کے لیے جانور ذبح کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے طریقے سے انحراف کریں اور اللہ ہی کے لیے اخلاصِ نیت اپنا کرلیں۔ امام ابن ابی حاتم نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدِ قربان کے دن دو مینڈھوں کی قربانی دی اور انھیں ذبح کرتے ہوئے یہ پڑھا: { اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ} [الأنعام: ۷۹] ’’میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے آپ کو اُسی ذات کی طرف متوجہ کیا (یعنی اپنا رُخ اس کی طرف کیا) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘[1] اس میں ہر قسم کی عبادت آجاتی ہے۔ صدقہ و خیرات بھی، یعنی ہمارا ہر کام اللہ کے لیے ہو۔ یہی فرق ہونا چاہیے مشرکین اور مسلمانوں میں، کیونکہ صدقہ و خیرات مشرکینِ مکہ بھی بہت کیا کرتے تھے، ان میں سے ایک شخص جس کا نام عبداللہ بن جدعان تھا، حج کے مہینے میں وہ سینکڑوں اُونٹ ذبح کر کے حجاج کی ضیافت کیا کرتا تھا۔ اس کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس کے اس عمل کا اس کو کیا صلہ ملے گا؟ تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنم ہی میں ہوگا اس لیے کہ وہ مشرک تھا۔ مشرکینِ مکہ اجتماعی طور پر حجاج کو کھلاتے پلاتے، منیٰ اور مزدلفہ بھیجتے، مسجدِ حرام کی تعمیر بھی کرتے اور وہاں کی صفائی بھی کیا کرتے تھے، لیکن ان کے اس کام کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں ذکر کیا ہے:
Flag Counter