Maktaba Wahhabi

185 - 611
مگر آج لوگ اس کے بدلے میں قبر پر پھولوں کی چادر چڑھا دیتے ہیں جبکہ اس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، نہ قبر کے اندر والے کو اور نہ چادر چڑہانے والے کو، بلکہ چادر کی ضرورت اس کے گھروالوں کو ہے۔ اب پانچواں اور اسلام کا آخری رکن جو بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنا ہے، یہ مشرکینِ مکہ بھی کیا کرتے تھے، جب وہ لوگ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تو وہ تلبیہ بھی پڑھا کرتے تھے، لیکن ان کا تلبیہ کچھ اس طرح ہے: (( لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ إِلَّا شَرِیْکاً ہُوَ لَکَ تَمْلِکُ وَمَا مَلَکَ )) ’’اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے کہ اس کا اور اس کی ہر ملکیت کا بھی تو ہی مالک ہے۔‘‘ یعنی جن کو ہم وسیلہ بناتے ہیں اپنے اور تیرے درمیان ان کا بھی تو ہی مالک ہے۔ کیا خیال ہے! اگر ہم ان کے اس تلبیے کی روشنی میں اپنے اعتقاد کا جائزہ لیں تو فرق کیا ہے؟ آج کا مسلمان بھی تو یہی کہتا ہے کہ یہ او لیاء اللہ در اصل اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں، یعنی اللہ کے قریب ہیں، اس نے ان اولیا کو فطرت سے بالا ترقوت عطا کی ہے۔ اسی لیے تو ہم کسی کو گنج بخش (خزانوں کا مالک) کسی کو داتا (دینے والا) اور کسی کو غوثِ اعظم کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان اولیاء اللہ سے مانگنا دراصل اللہ ہی سے مانگنا ہے تو پھر ہمارے اور مشرکین کے اعتقادات میں کیا فرق ہے؟ ہم کریں تو ہم مسلمان ہیں، وہ کرتے تھے تو وہ مشرک ۔۔۔ کیوں؟یہاں انصاف کرنے کے لیے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مشرکین اور مسلمانوں میں فرق کیا ہونا چاہیے؟ فرق یہ ہے کہ مسلمانوں کا ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے ہو اور اس کا طریقہ بھی وہی ہو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے اور جس کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو، اگر وہ ہی طریقہ ہم نے اپنالیاتو ہم مسلمان ہیں اور ان شاء اللہ ہمارا ہر عمل قبول ہوگا اور اس میں ہمارے لیے خیر وبرکت ہے۔ لیکن اگر ہم نے بھی وہ طریقہ اپنایا جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے تو وہ کام کبھی ہمارے لیے خیر اور بھلائی کا نہیں ہوسکتا اور جس کام میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہو ہم اس کو دین سمجھ کر کریں گے تو ایسا کوئی کام
Flag Counter