Maktaba Wahhabi

184 - 611
نام پر دیں، تو کہتے ہیں کہ اگر پیر کے نام کی نیاز بر وقت پر نہ دی تو پیر کی مار پڑتی ہے اور کاروبار میں سے خیر و برکت ختم ہوجاتی ہے اور کہتے ہیں کہ پیر کو پیٹھ بھی نہیں کرنا چاہیے، یوں انھوں نے دینِ اسلام کا مذاق بنا دیا ہے، کیونکہ یہ سب کام وہ دین ہی کے نام پر تو کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایسے پیر کے پاس کیوں جانا جو رشوت کے بغیر کسی کے کام نہیں آتے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ان سے کوئی برکت نہیں ملتی، بلکہ پہلی بھی ختم ہوجاتی ہے، اس قسم کے پیروں کی وجہ سے گھروں میں برکتیں ختم ہوجاتی ہیں، ان کو چھوڑ دیں، ایک ہی پیر کی اتباع کریں جو پیروں کے پیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کی اتباع میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہیں، لہٰذا وہ جو بات کہتے ہیں اس پر عمل کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ کسی پیر کی مار نہیں پڑے گی، بلکہ ہر طرف ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوگی، برکت ختم ہی نہ ہوگی۔ ماں باپ کا بہت بڑا مقام ہے، کیونکہ جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذکر آیا ہے وہاں ہی ماں باپ کی فرمانبرداری کا حکم آیا ہے۔ مگر کچھ لوگ زندگی میں کبھی ایک دن بھی مکمل والدین کی فرمانبرداری نہیں کرتے لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں کو پختہ ہی نہیں بلکہ سنگِ مرمر کی بناتے اور اس پر لوہے کی جالی لگاتے ہیں۔ پھر لاکھوں روپیہ لگا کر فاتحہ کرتے اور اس بات کا جھو ٹا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ماں باپ سے بہت پیار تھا اور دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو اس نے اپنے ماں باپ کی برسی کتنی دھوم دھام سے کی ہے۔ نہیں میری بہنو اور بھائیو! بلکہ ان سے یہ پوچھیے کہ اس کا اُن کو کوئی فائدہ ہوا ہے، یعنی کوئی ثواب پہنچا ہے مرنے والے کو جس کے لیے اس نے اتنا خرچہ کیا ہے؟ ہر گز نہیں۔ نہ اس کو نہ اس کے و الدین کو کوئی ثواب ملا ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’انسان جب مرجاتا ہے تو اس کے سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے، ان میں سے: 1نیک اولاد ہے جو اپنے ماں باپ کے لیے دعا مغفرت کرے (جو بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے) 2صدقہ جاریہ۔ 3کوئی علمی کام جس سے لوگوںکو (اس کے مرنے کے بعد بھی) فائدہ پہنچتا رہے۔‘‘[1]
Flag Counter