Maktaba Wahhabi

183 - 611
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘[1] مشرکینِ مکہ نماز بھی پڑھا کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے، بلکہ دس محرم یا عاشورا کا روزہ بھی رکھتے تھے۔ کئی قومیں اور بھی ایسی ہیں جو آج بھی روزہ رکھتی ہیں اور اپنے اپنے طریقے سے عبادت بھی کرتی ہیں تو کیا یہ روزے اور ان کی عبادات اور ان کی نمازیں ان کو کوئی نفع دے سکتی ہیں؟ ہر گز نہیں، کیونکہ جب تک یہ دینِ اسلام قبول نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا نہ چھوڑدیں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل نہ کریں گے، تب تک کوئی عمل قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ عقیدہ سب سے اہم ہے، اسی لیے اسلام کے پانچ ارکان میں اہم رکن عقیدہ ہے۔ اگر عقیدہ صحیح ہے، اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہے اور نیت بھی نیک ہے، یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے ہو، تو پھر آپ کا کیا ہوا ہر عمل ان شاء اﷲ قابلِ قبول ہوگا، ورنہ نہیں۔ سب سے پہلے ہم اپنے عقیدے کی اصلاح کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مشرکینِ مکہ کی طرح آپ کی بھی عبادت قبول نہ ہو، یعنی عمرہ، حج، صدقہ وغیرہ، کیونکہ بنیاد صحیح ہے تو دیواریں کھڑی ہونگی ورنہ عمارت گر جائے گی۔ صدقہ وخیرات مشرکینِ مکہ بھی اللہ کے نام پر دیتے تھے، لیکن اپنے معبودانِ باطلہ کے نام پر بھی کچھ حصہ مقرر کرتے تھے اور آج کا مسلمان کیا کرتا ہے: یہ بکرا قربانی کے نام ہے اور یہ گیارہویں کا، یہ بکرہ عقیقے کا اور یہ پیروں کی نیاز کا۔ تو پھر ان میں اور آج کے مسلمانوں میں کیا فرق رہ گیا ہے؟ کیونکہ وہ بھی جب تقسیم کرتے تھے تو ایک حصہ اللہ کا اور ایک حصہ اپنے باطل معبودوں کے نام کرتے تھے، اگر اللہ کے حصے میں چیز زیادہ آجاتی تو اس سے نکال لیتے، اگر دوسری طرف چلی جاتی تو اسے رہنے دیتے۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ} [الأنعام: ۱۳۶] ’’کتنا بُرا ہے ان کا یہ فیصلہ جو یہ کرتے ہیں۔‘‘ آج کا مسلمان بھی نیاز، گیارھویں، فاتحہ ضرور کرے گا، چاہے اس کے لیے اُسے سود پر قرض ہی کیوں نے لینا پڑے۔ اگر انھیں کہیں کہ یہ غلط ہے۔ میرے بھائی اگر دینا ہے تو اللہ کے
Flag Counter