کی قسم! میں نے تو وہ سارا قرآن پڑھا ہے جو دو تختیوں کے درمیان ہے، اس میں تو میں نے یہ چیز (مذکورہ قسم کی عورتوں پر لعنت) نہیں پائی۔ عبد اللّٰہ بن مسعود نے فرمایا: اللّٰہ کی قسم! اگر تو اسے (صحیح سمجھ کر) پڑھتی تو یقینا تو اس میں یہ بات پاتی کہ اللّٰہ کے رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو (اپنالو) اور جس سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ۔‘‘ تشریح وَاشِمَات، وَاشِمَة کی جمع ہے، وشم کرنے والی عورت۔ مُسْتَوْشِمَات، جمع ہے مُسْتُوْشِمَة کی، وشم کروانے والی عورت۔وشم کے معنی ہیں گودنا، جس کا مطلب ہے کہ جسم کے کسی حصے پر سوئی یا اسی قسم کی کسی چیز سے باریک سا سوراخ کرنا حتی کہ خون بہنا شروع ہو جائے، پھر اس میں سرمہ یا کوئی رنگ بھر دینا۔ عام طور پر چہرے یا ہاتھوں پر ایسا کیا جاتا تھا جیسے ہندو عورتیں پیشانی پر سیندور بھرتی یا بندیا لگاتی ہیں۔ گودنا بھی اسی قسم کا کوئی فیشن تھا جو زمانۂ جاہلیت میں عورتوں میں رائج تھا۔ مُتَنَمِّصَات، مُتَنَمِّصَة کی جمع ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اس کے معنی ہیں، بال اُکھڑوانے والی عورت اور اُکھیڑنے والی عورت کو نَامِصَة کہا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں) گویا مُتَنَمِّصَات وہ عورتیں ہیں جن کے چہروں یا اَبرؤں سے بال اُکھیڑے جائیں اور جو عورتیں یہ کام کریں گی، وہ نَامِصَة ہیں۔یہ بھی اس زمانے کا ایک فیشن تھا کہ پلکوؤں (ابرؤں) اور چہرے کے اِکّے دُکّے بالوں کو اُکھیڑا جاتا تھا جیسے آج کل بھی یہ جاہلی فیشن عورتوں میں عام ہے ۔ وہ ابروؤں کے بالوں کو اکھیڑ کر مختلف قسم کے چمکیلے رنگ یا سرمہ وغیرہ اس میں بھر لیتی ہیں۔ حدیث کی رو سے یہ سب لعنتی فعل ہیں۔ تاہم کسی عورت کے چہرے پر داڑھی یا مونچھیں اُگ آئیں تو چونکہ یہ معمول کے خلاف بات ہے، اس لیے ان بالوں کا صاف کرنا اس کے لیے جائز بلکہ مستحب ہے کیونکہ ان بالوں سے واقعی عورت کا چہرہ بدنما ہو جاتا ہے۔ اس بدنمائی کو دور کرنا اس کے لیے جائز اور مستحب ہے جب کہ پہلی قسم کا مطلب فیشن کے طور پر اللّٰہ کی پیدائش میں تبدیلی کرنا ہے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |