Maktaba Wahhabi

45 - 495
اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حجۃ الو دا ع کے مو قع پر دسو یں تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قر با نی کی پھر حجا م کو بلا یا اور دا ئیں جا نب کے با ل صا ف کر کے لو گو ں میں ایک ایک یا دو دو تقسیم کر دیئے، پھر با ئیں جا نب کے با ل اتا ر کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دے دیئے ۔ (صحیح مسلم: با ب بیا ن ان السنۃ یو م النحر ) دیگر روا یا ت میں مز ید تفصیل بھی ہے کہ حضرت ابو طلحہ نے مو ئے مبارک کب اور کیسے حا صل کئے اور پھر کسے دے دئیے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الو دا ع کے مو قع پر رمی کر نے کے بعد قربانی کی، پھر حجا مت بنو ائی اپنے سر کے تما م با ل حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دے دئیے اور فر ما یا : کہ دا ئیں جانب کے با ل لو گو ں میں تقسیم کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : کہ یہ با ل اپنی بیو ی ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دے دو، چنانچہ انہو ں نے ایسا کیا ،حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا ان با لو ں کو دھو تیں اور اس پا نی کو خوشبو میں ملا تیں جس سے خو شبو تیز ہو جا تی ۔(مسند امام احمد : 1450) بعض روا یا ت میں ہے کہ وہ بخا ر والے مر یض کو پا نی پلا تیں تو صحت مند ہو جا تا (مسند امام احمد )رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مو ئے مبا رک کی حقیقت بیا ن کر نے کے بعد ہم اس با ت کا جا ئز ہ لیتے ہیں کہ اس وقت آپ کے مو ئے مبا رک مو جو د ہیں یا لو گو ں کے جذبا ت سے نا جا ئز فائدہ اٹھا نے کے لئے صر ف دعویٰ کی حد تک اسے شہر ت دی جا تی ہے لیکن مسئلہ ز یر بحث کی نزا کت کے پیش نظر ہم یہ وضا حت کر دینا ضروری خیا ل کر تے ہیں کہ آپ کے مو ئے مبا رک اگر آج حقیقتاً موجو د ہیں تو ان میں خیرو بر کت کا پہلو بد رجہ اتم مو جو د ہے، وقت گزرنے کے سا تھ سا تھ اس میں کو ئی کمی نہیں آسکتی، جیسا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس مو ئے مبا رک تھے جو انہیں فضل بن ربیع رحمۃ اللہ علیہ کے کسی لڑکے نے عنا یت فر ما ئے تھے ، آپ ان با لو ں کو بو سہ دیتے، آنکھو ں پر لگا تے اور پا نی میں بھگو کر شفا کے طور پر اس پا نی کو نوش کر تے، جن دنو ں آپ پر آز ما ئش آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہو ئے تھے ، بعض لو گوں نے آپ کی آستین سے مو ئے مبا رک نکالنے کی کو شش کی لیکن وہ نا کا م رہے ۔ (سیر اعلام النبلاء : 11/250) اس کے علا و ہ بھی متعدد آثا ر و واقعات سے معلوم ہو تا ہے کہ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم اور تا بعین عظام کے بعد بھی لو گ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثا ر شریفہ اور مو ئے مبا ر کہ سے تبر ک لیتے تھے،اگرچہ اکثر واقعات صحیح نہیں ہیں بلکہ وہ غلط طو ر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسو ب ہیں ، اس وقت آپ کے موئے مبا ر ک کی مو جو د گی کا جا ئز ہ لینے کے لئے مندر جہ ذیل حقا ئق کو پیش نظر رکھنا انتہا ئی ضروری ہے ۔ (1)حضرت عمر وبن حا رث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے و فا ت کے وقت جائیدا د کے طو ر پر نہ کو ئی درہم و د ینا ر چھو ڑا اور نہ ہی کو ئی لو نڈی غلا م آپ کا تر کہ بنا ،صرف آپ کی سفید خچر ،کچھ ہتھیا ر اور تھوڑی سی زمین تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ہی صدقہ کر دیا تھا۔(صحیح بخا ری، کتا ب الو صا یا ) اس کا مطلب یہ ہے کہ وفا ت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا تی اشیا ء بہت کم تعداد میں مو جو د تھیں ۔ (2) وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ آپ کے آثا ر شریفہ اور تبر ک معدوم ہو گئے یا جنگو ں اور فتنوں کی نذر ہو کر ضا ئع ہو گئے جیسا
Flag Counter