حمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا نے والو ں میں شر یک تھیں اس لیے کچھ حضرات اس نام سے تکدر محسو س کر تے ہیں، ہما ر ے نزدیک ایسا رویہ درست نہیں ہے کیو نکہ سزا اور تو بہ کے متعلق جر م کی نو عیت ختم ہو جا تی ہے، ویسے انسا ن کے نا م کا اس کی شخصیت کے ساتھ گہرا تعلق ہو تا ہے، اس کے اخلا ق و کردار پر بھی نا م اثر اندا ز ہو تا ہے، نیز قیا مت کے دن انسا ن کو اس کے نا م مع ولدیت آواز دی جا ئے گی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرا می ہے :" کہ تم اپنی اولا د کے لیے اچھے نا م کا انتخا ب کیا کرو ۔‘‘ (ابو داؤد:الادب ،4948) اللہ تعا لیٰ کے ہا ں پسندیدہ نا م وہ ہیں جن میں اللہ یا رحمن کے لیے عبودیت کا اظہا ر ہو، چنا نچہ حد یث میں ہے :" کہ اللہ تعا لیٰ کو عبد اللہ اور عبد الر حمن نا م بہت پسند ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم :15587) اسی طرح وہ نا م جن میں بند ے کی عبودیت کا اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کی طرف انتسا ب ہو جیسا کہ عبد السلا م عبد الر حیم اور عبد القدوس وغیرہ ۔ حضرات انبیا ء علیہم السلام کے نا م بھی اللہ کے ہا ں اچھے نا م ہیں ،حدیث میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ اپنی اولا د کے لیے انبیا ء کے نا م تجو یز کیا کرو ۔‘‘ (ابو داؤد: الا دب 4950) اسلاف میں جو نیک سیر ت اور اچھے کر دا ر کے حا مل لو گ ہو ں، ان کے نا م بھی تجو یز کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرامی ہے :" کہ تم سے پہلے حضرات انبیا ء علیہم السلام اور صا لحین کے نا مو ں کے مطا بق اپنی اولا د کے نا م رکھتے تھے ۔‘‘(صحیح مسلم :الا دب 5598) ان حقا ئق کے پیش نظر حمنہ ایک اسلا می نا م ہے اور اپنی بچیو ں کا نا م رکھنے میں کو ئی قبا حت نہیں ہے ۔ سوال۔کرا چی سے ابو عمر سوال کر تے ہیں کہ الحما د کا کیا معنی ہے اور آپ اسے اپنے نا م کے آگے کیو ں لکھتے ہیں ؟ جواب ۔اس سوال کا تعلق عملی زند گی سے نہیں ہے تا ہم اس کا جو اب پیش خد مت ہے، الحما د کا معنی کثرت سے اللہ کی تعریف کر نے والا ہے، اگر چہ راقم آثم کثرت سے اللہ تعالیٰ کی تعر یف نہیں کر تا اس امید پر اس لقب کو اختیا ر کیا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ مجھے ایسا کر نے کی تو فیق دے، اسے بطو ر لقب اختیا ر کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تو را ت میں اس امت کا صفا تی نا م "الحما د ون بتا یا گیا ہے، جیسا کہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سوال کر نے پر کعب احبا ر نے اس کی وضا حت کی ہے ۔ (دارمی :1/61،حدیث نمبر 8،7،5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرا می ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے ہا ں قیا مت کے دن اللہ کے ہا ں بہتر ین بندے "الحما دو ن "ہیں، یعنی جو اس کی کثرت سے تعریف کر نے وا لے ہوں گے ۔ (مسند امام احمد :4/434) بطو ر تفا ؤ ل اس لقب :الحما د " کو اختیا ر کیا گیا ہے ، قا رئین کرا م سے دعا کی اپیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے لقب کی لا ج رکھنے کی تو فیق دے۔ (آمین ) سوال۔ وہا ڑی سے رضوا ن اللہ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کا کسی ٹیچر لڑکی سے نکا ح ہوا ،وہ اس وقت اس کی تنخو ا ہ وصو ل کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ عورت کی آمدنی صرف شو ہر کے لیے ہے، عورت کو جا ئیداد بنانے کا شریعت نے حق نہیں دیا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ جواب ۔قرآن کر یم کے مطا لعہ معلو م ہو تا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے شا د ی کے بعد بھی عورتو ں کے حق ملکیت کو بر قرار رکھا |