Maktaba Wahhabi

417 - 495
کے ''جرم '' میں ان کے پیچھے نماز پڑھنا ترک کردیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں ہماری گزارشات یہ ہیں کہ ضروریات زندگی سے بالا تر ایسے مخلصین آج کل کہاں دستیاب ہیں جو فی سبیل اللہ یہ خدمت سر انجام دیں۔دوسری طرف یہ بھی اندیشہ ہے کہ طعن وملامت کے ان شدید حملوں کی تاب نہ لا کر بعض کم ہمت اس دینی فریضہ کی بجا آوری سے اجتناب کرنے لگیں۔ اس کے سنگین نتائج مساجد کے ویران ہونے کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کے تما م پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے۔ لہذا سوال یوں ہونا چاہیے کہ دینی کام کے لئے کسی صاحب علم کی ہمہ وقتی یا جزو قتی خدمات معقول مشاہرہ پر حاصل کی جاسکتی ہیں یا نہیں؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معاملہ پیش خدمت ہے کہ وہ خلافت اٹھانے سے پہلے کپڑا فروخت کرنے کا کاروبار کرتے تھے۔ جس دن خلافت کا بوجھ کندھوں پر آپڑا تو اگلے دن حسب پروگرام کپڑا فروخت کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:جناب امیر المومنین!رعایا کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ کیا کرنے لگے ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اہل خانہ کو کہاں سے کھلاؤں؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم آ پ کا ماہانہ وظیفہ مقرر کردیتے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ دار ی ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ خلافت سے پہلے میرا کاروبار میرے بال بچوں کے لئے کافی تھا۔اب چونکہ میں مسلمانوں کے معاملات میں مصروف رہتا ہوں، لہذا آل ابی بکر کو مسلمانوں کے مال سے بقدر ضرورت لینے کا حق ہے۔(بخاری ،کتاب البیوع ،حدیث نمبر 2070) قرآن مجید کی تصریح کے مطابق خلیفہ کی پہلی ذمہ داری نماز پڑھانا ہے۔(22/الحج "41) جب اس مصروفیت کی وجہ سے خلیفہ کو بیت المال سے کچھ وصول کرنے کا حق ہےتو خطیب کو اپنی پابندی اور مصروفیت کا حق وصول کرنا کیوں ناجائز ہے؟جبکہ وہ اہل مسجد سے ''معاہدہ خدمت'' کرنے کے بعد مصروف ہوگیا ہے۔اس طرح جز وقتی دینی خدمات سر انجام دینے پر مشاہرہ وصول کرنا بھی شریعت سے ثابت ہے۔جیسا کہ ایک مریض پر سورۃ فاتحہ کا دم کرنے پر چالیس بکریاں لینے کا معاہدہ طے ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا:'' کتاب اللہ پر معاوضہ لینے کا تم زیادہ حق رکھتے ہو۔''(صحیح بخاری کتاب الطب حدیث نمبر 5737) بلکہ آپ نے دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لئے مزید فرمایا:'' کہ میرا بھی اس میں حصہ رکھنا۔''(حدیث نمبر 5736) اب ہم ایک اور پہلو سے بھی اس کا جائز لیتے ہیں کہ کیاواقعی یہ دینی خدمت کاروبار یا خریدوفروخت ہےجو اس آیت کی زد میں آتا ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ اجارہ کی ایک قسم ہے جو پابندی کے مقابلہ میں طے ہوئی ہے۔ اگرا سے کاروبار کا نام بھی د ے دیا جائے تو بھی منع نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اذان کے بعد اس کاروبار کو منع فرمایا ہےجو ذکر اللہ یعنی جمعہ کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث ہو، یہی وجہ ہے کہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد کو آتے وقت راستے میں جو کاروباری معاملہ طے ہوجاتا ہےاس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہوتی۔اس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔صورت مسئولہ میں جس دینی خدمت کو کاروبار کہا گیا ہے، وہ اللہ کے ذکر میں رکاوٹ کا موجب نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو عین اللہ کا ذکر ہے۔ اس میں اور دنیا وی کاروبار میں کیا قدر مشترک ہے کہ دونوں کاحکم ایک جیسا ہو؟ مسئلہ کی وضاحت کے بعد ہم خطیب حضرات سے بھی یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ صاحب
Flag Counter