عادت ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟نیز عید کے موقع پر مبارک باددینے کا بھی ثبوت ملتا ہے؟ جواب۔نماز عید کے بعد مصافحہ کرنے یا گلے ملنے کا ثبوت کتاب وسنت سے نہیں ملتا۔مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے بایں الفاظ بڑا جامع جواب دیا ،فرماتے ہیں:'' مصافحہ بعد از سلام آیا ہے۔ اور عید کے روز بھی بحیثیت تکمیل سلام مصافحہ کریں تو جائز ہے۔بحیثیت خصوص عید بدعت ہے کیوں کہ زمانۂ رسالت وخلافت میں مروج نہ تھا۔''(فتاویٰ ثنائیہ :1/450) البتہ عید کے بعد ایک دوسرے کو بایں الفاظ مبارک باد دی جاسکتی ہے۔'' تقبل اللّٰه منا ومنكم''(اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے) اگرچہ اس کے متعلق بھی کوئی مرفوع روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہےتاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل صحیح سند سے منقول ہے۔چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ صحابہ کرام جب عيد كےدن ملتے تو مذکورہ الفاظ سے ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے تھے۔''(فتح الباری :3/446) اسی طرح محمد بن زیاد فرماتے ہیں:'' کہ میں حضرت ابو امامہ باہلی اور دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمرا ہ تھا۔جب وہ عید پڑھ کرواپس ہوئے تو انہوں نے ان الفاظ میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی:’’اللہ ہم سے اور تجھ سے قبول فرمائے۔‘‘(الجواہر التقی:3/320) کتب حدیث سے بعض روایات ایسی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت معلوم ہوتی ہے اور اسے اہل کتاب کاطریقہ بتایاگیا ہے۔ لیکن وہ روایات محدثین کے معیار صحت پر پورا نہیں اترتی۔(سنن بیہقی :3/32) ان الفاظ کے پیش نظر مذکورہ الفاظ سے مبارک باد دی جاسکتی ہے۔لیکن مصافحہ کرنا اور معانقہ ایک رواج ہے جس کا ثبوت قرآن وحدیث سے نہیں ملتا۔(واللہ اعلم) عید منانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے رمضان کا مہینہ کیسے گزارا؟اس کے حقوق وفرائض کہا ں تک ادا کئے؟روزہ کے مقصد(حصو ل تقویٰ) کو حاصل کرنے کے لئے کس حد تک کوشش کی؟کیا رمضان کے روزوں سے ہماری دنیا کی محبت میں کمی اور آخرت کے شوق میں اضافہ ہوا؟دنیامیں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی نے ہمیں کس حد تک پریشان کیا؟ان کے ساتھ مالی اخلاقی تعاون کا جذبہ کس حد تک بیدا ر ہوا؟اگر ان سب سوالوں کاجواب اثبات میں ہے تو ہم عید منانے اور اس کی مبارک باد دینے اور قبول کرنے کے حق دار ہیں۔بصورت دیگر ہم اپنے گریبان میں خود جھانکیں اور سوچیں۔ سوال۔ڈیرہ نواب سے عبد الرحمٰن لکھتے ہیں کہ جو خطیب حضرات تنخواہ لے کر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں ،ان کا کاروبار تو اذان جمعہ کے متصل ہی شروع ہوجاتا ہے۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی خریدوفروخت سے منع فرمایا ہے تو کیا اس فرمان الٰہی کی رو سے علماءئے حضرات کا معاوضہ لے کر خطبہ دینا صحیح ہے؟ جواب۔واضح رہے کہ پیش آ مدہ مسئلہ کے مطابق ہم افراط وتفریط کا شکار ہیں کیوں کہ اس دور میں کچھ حضرات جو خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں۔ضروریات زندگی سے آگے بڑھ کر طمع ولالچ اور ہوائے نفس کاشکار ہوچکے ہیں۔جبکہ رد عمل کے طور پر بعض انتہا پسند اس دینی خدمت پر''کاروبار''کی پھبتیاں کس رہے ہیں۔اور بعض مقامات پر فضا اس قدر مکدر کردی گئی ہے کہ بقدر ضرورت مشاہرہ لینے |