Maktaba Wahhabi

373 - 495
ان الفاظ سے کیا مراد تھی؟اگر اس نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے تھے تو اب بیوی کی عدت بھی ختم ہوچکی ہے، لہذا اسے شرعاً نکاح کرنے کی اجازت ہے۔اور اگر اس نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے استعمال نہیں کیے بلکہ بطور دھمکی اور اصلاح احوال کے لئے کہے ہیں تو اس صورت میں طلاق نہیں ہوگی۔ سائل کی بیٹی ایسے حالات میں بدستور داماد کی بیوی ہے۔ برادری کے سرکردہ احباب یا مقامی معززین کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔تاکہ معاملہ زیادہ خراب نہ ہو۔ سوال۔ساہیوال سے غازی بشیر لکھتے ہیں کہ میری بیوی کسی وجہ سے ناراض ہوکر اپنے میکے چلی گئی ہے اورتقریباً دس ماہ سے اپنے والدین کے ہاں رہ رہی ہے۔مجھے سسرال والوں سے پیغام ملا ہے کہ ہماری لڑکی کوطلاق ہوگئی ہے۔ کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق اگر بیوی اپنے خاوند سے ناراض ہوکر اپنے والدین کے ہاں تین ماہ کا عرصہ گزاردے تو اسے خود بخود طلاق ہوجاتی ہے جبکہ میرا قطعی طور پر طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا واقعی بیوی کے اپنے والدین کے ہاں بیٹھنے سے خود بخود طلاق ہوجاتی ہے کیا طلاق دینا خاوند کا حق نہیں ہے؟ جواب۔واضح رہے کہ بیوی خاوند کے اخلاص ومحبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' اور اس اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیداکیں تا کہ تم ان کے پاس سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان پیا رومحبت اور مہرووفا پیدا کردیا ہے۔''(30/الروم :30) اس آیت کے پیش نظر میاں بیوی کے باہمی تعلقات اتنے خوشگوار ہونے چاہئیں کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اغراض ومقاصد پورے ہوں، یعنی ان میں باہمی اخلاص پیارو محبت اور سکون وچین ہونا چاہیے ۔اگر کسی نکاح سے قدرت کے یہ مقاصد پورے نہیں ہوتے تو اس میں دونوں یا ان میں سے کسی ایک کا قصور ضرور ہے۔ میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات کواسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ ان لوگوں کو سخت الفاظ سے یاد کیا ہے جو میاں بیوی کے باہمی میل جول میں رخنہ اندازی کاباعث ہوں۔حدیث میں ہے:'' جو شخص کسی کی بیوی کو اس کے خاوند کے خلاف اکساتا ہے اور اسے خراب کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''(ابو داؤد :النکاح 2175) اس حدیث کے پیش نظر سسرال والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بچی کی آبادی میں خوشی محسوس کریں اور خاوند کوچاہیے کہ وہ ان اسباب کی تلافی کرے جو معاملات کے بگاڑ کاسبب بنتے ہیں۔صورت مسئولہ میں اگر بیوی ناراض ہوکر اپنے میکے چلی جاتی ہے تو محض اس کے وہاں بیٹھے رہنے سے طلاق نہیں ہوگی۔جب تک خاوند طلاق سے متعلقہ اختیارات کو استعمال نہیں کرے گا۔ طلاق دینا خاوند کا حق ہےجسے شریعت نے تسلیم کیا ہے۔بیوی اگرواقعی تنگ ہےتو اسے خلع لینے کی اجازت ہے۔ اس صورت میں اسے اپنے حق مہرسے دستبردار ہونا پڑے گا۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔رشید احمد جڑانوالہ سے پوچھتے ہیں کہ ایک شخص اپنی بیوی کوطلاق دینے کے ارادہ سے وثیقہ نویس کے پاس گیا اور اسے طلاق نامہ لکھنے کے متعلق کہا، وثیقہ نویس نے اشٹام پر تین طلاق(طلاق ۔طلاق ۔طلاق) لکھ دیں ۔شوہر ان پڑھ تھا اسے کوئی پتہ نہیں کہ طلاق کسی طرح لکھی جاتی ہے۔اس کامقصد صرف طلاق دیناتھا، کیا اس طرح طلاق ہوجاتی ہے، نیز اسی طلاق کے بعد رجوع کا امکان ہے یا نہیں؟
Flag Counter