بھی بند ہوجائے۔ صورت مسئولہ میں تو گواہی کی ضرورت نہیں کیوں کہ خاوند اس بات کا معترف ہے کہ میں نے اپنے کسی عزیز کےہاں یہ الفاظ کہے ،لہذا احتیاط اس میں ہے کہ اس کی بیوی جب پہلا بچہ جنے تو خاوند عدت کے اندر اندر رجوع کرے اور آئندہ ایسی فضول حرکت نہ دھرائے۔(واللہ اعلم) سوال۔تھنہ ضلع اٹک سے مولانا محمد اسحاق خریداری نمبر 3118 لکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل سوال کا حل کتاب وسنت کی روشنی میں درکا ر ہے۔ ایک آدمی بایں الفا ظ قسم اٹھاتا ہے کہ اگر میں اپنے بھائیوں کی دکان میں کام کروں گا تو میری بیوی مجھ پر حرام ہے۔اب اگر وہ اس دکان میں کام کرے گا تو کیا اس کی بیوی کو طلاق ہوجائےگی؟ جواب۔سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم ا ٹھانے والے نے بھائیوں سے کسی رنجش کی بنا پر ان کی دکان پر کام نہ کرنے کی قسم اٹھائی لیکن الفاظ اس طرح ادا کیے کہ اگر میں اپنے بھائیوں کی دکان پر کام کروں تو میری بیوی مجھ پر حرام ہے۔ان الفاظ سے اپنی بیوی کو طلاق دینا قطعی مقصود نہ تھا:''کہ اگر انسان اپنی بیوی کوخود پر حرام کرلینے کے الفاظ ادا کرتا ہے تو اس سے طلاق نہیں ہوتی ہے۔بلکہ یہ ایک قسم اٹھانے کا انداز ہے۔ اسے صرف قسم کا کفارہ ینا ہوگا جو دس مساکین کو کھانا کھلانا ،انہیں لباس دینا ہے، عدم استطاعت کی صورت میں تین دن کے روزے رکھنے سے ہی کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی کسی لونڈی یاشہد کوخود پر حرام کرلیاتھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا:'' تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے۔''(66/التحریم:2) یعنی جو چیز خود پرحرام کی گئی اسے قسم کا کفارہ دے کر استعمال کیا جاسکتاہے۔(صحیح بخاری :کتاب التفسیر کتاب الطلاق) صورت مسئولہ میں اگر بیوی کو طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو قسم کا کفارہ ادا کرکے اپنے بھائیوں کی دکان پر حسب سابق کام شروع کردے ،اس انداز سے بیوی کو طلاق نہیں ہوتی۔(واللہ اعلم) سوال۔ایک سائل خریداری نمبر 3117 نے لکھا ہے کہ میری بیٹی کا اپنے خاوند سے کسی بات پر جھگڑا ہوا، میں نے بیٹی اور داماد کو سمجھایا اور صلح کرانے کی کوشش کی مگر میرا داماد صلح پر آمادہ نہ ہوا۔بلکہ اس نے کہا اپنی بیٹی کو ساتھ لے جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو۔یہ یکم جنوری 2001 ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد میرے داماد نے دوسری شادی بھی کرلی ہے۔ اس کے باوجود میں نے دوبارہ صلح کے لئے رابطہ کیا لیکن وہ صلح کے لیے تیار نہیں ہے۔کیا اس طرح میری بیٹی کو طلاق ہوگئی یا نہیں؟کیا وہ آگے نکاح کرسکتی ہے؟ جواب۔بیوی خاوند کا اگر گھر میں کسی بات پر جھگڑ اہوجائے تو اسے گھر میں رہتے ہوئے نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن اگر داماد نے سائل کو یہ کہہ دیا ہے کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے جاؤ میری طرف سے فارغ ہو۔صرف اتنا کہنے سے طلاق نہیں ہوگی۔کیونکہ یہ الفاظ اس نے اپنی بیوی کو مخاطب کرکے نہیں کہے اگر بیوی ہی کو کہے تب بھی یہ الفاظ طلاق کے لئے صریح نہیں ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں اسے کنایہ کہا جاتا ہے۔ ایسے الفاظ کہنے سے خاوند کی نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر اس کی نیت واقعہ طلاق کی تھی تو اسے طلاق شمار کیاجائے گا۔بصورت دیگر یہ الفاظ ایک دھمکی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ داماد کا دوسری شادی کرلینا بھی طلاق کے لئے دلیل نہیں بن سکتا ۔کیوں کہ یہ اس کا حق ہے جو اس نے استعمال کیا ہے ۔بہتر ہے کہ پنچایتی طور پر خاوند سے دریافت کیا جائے کہ اس کی |