Maktaba Wahhabi

363 - 495
اکھٹے نہیں ہوسکتے۔ 1۔خاوند زندگی میں وقفہ وقفہ بعد تین طلاقیں دے ڈالے۔ایسی صورت میں مطلقہ عورت سابقہ خاوند کے لئے حرام ہوجاتی ہے۔البتہ تحلیل شرعی کے بعد اکھٹا ہونے کی گنجائش ہے۔(مروجہ حلالہ اس سے مراد نہیں کیونکہ یہ باعث لعنت ہے) 2۔لعان کے بعد میاں بیوی کے درمیان جو جدائی عمل میں آتی ہے،اس کی وجہ سے وہ آئندہ اکھٹے نہیں ہوسکتے۔کسی صورت میں ان کاباہمی نکاح نہیں ہوسکتا۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اور کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دوبارہ میاں بیوی کا آپس میں نکاح نہ ہوسکتا ہو۔صورت مسئولہ میں چونکہ نکاح کے بعد قبل از ر خصتی طلاق ہوئی ہے۔لہذا ایسی صورت میں عدت وغیرہ نہیں ہوتی۔ طلاق ملتے ہی نکاح ختم ہوجاتا ہے۔آئندہ جب بھی حالات ساز گار ہوجائیں تو شرعی نکاح کرنے کے بعد میاں بیوی کے طور پر زندگی گزارنے میں شرعاً قباحت نہیں ہے۔اس نئے نکاح کے لئے چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ 1۔عورت کی رضا مندی 2۔سرپرست کی اجازت 3۔حق مہر کا تعین 4۔گواہوں کی موجودگی ۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت نمبر 49 میں اس قسم کی طلاق کاذکر فرمایا ہے۔ سوال۔بدوملہی سے چوہدری بشیر احمد ملہی لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو مورخہ 12/8/1986 کو طلاق لکھی ،معززین نے مورخہ 13/11/86 کو صلح کرادی ،پھر ناراضی کی وجہ سے مورخہ 29/11/88 کو وضح حمل ہوا۔اس کے بعد 27/3/89 کو یونین کونسل کی طرف سے طلاق کے مؤثر ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیاگیا۔اب فریقین صلح کرنا چاہتے ہیں قرآن وحدیث کی رو سے کیاایسا ہونا ممکن ہے؟ جواب۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ طلاق کے متعلق مسائل دریافت کرنے کے لئے یہ وضاحت ضرور کیاکریں کہ طلاق دیتے وقت عورت کس حالت میں تھی آیا رخصتی ہوچکی تھی یا نہیں؟ماہواری ایام کے متعلق بھی وضاحت درکارہوتی ہے۔کہ اگر بندش ہے تو کیا صغر سنی ،بڑھاپا یا حمل کی وجہ ہے۔رجوع کے متعلق بھی تفصیل لکھیں کہ تجدید نکاح سے رجوع ہوا ہے یا دوران عدت رجوع نکاح کے بغیر ہوا ہے؟صورت مسئولہ میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ جبکہ پہلی طلاق کے تین ماہ بعد معززین نے صلح کرائی ہے۔ تحریر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد عدت ختم ہوچکی تھی کیوں کہ طلاق میں قمری مہینوں کااعتبار ہوتا ہے ان تین ماہ میں تین حیض آنے کا دورانیہ بھی پورا ہوجاتا ہے۔اب معززین نے اس وقت صلح کرائی ہےجب نکاح ٹوٹ چکا تھا ،تجدید نکاح سے صلح ہوسکتی تھی۔ اگر دوبارہ نکاح کے بغیر صلح ہوئی ہے تو ایسا شرعاً جائز نہ تھا بلکہ اس کے بعد جو طلاق وغیرہ دی گئی ہے اس کے مؤثر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ عدت گزرنے کے بعد عورت خاوند کے لئے ایک اجنبی کی حیثیت اختیارکرجاتی ہے، اسے
Flag Counter