کے شایان شان نہیں کہ وہ ان کے ساتھ رشتہ ناطہ کرے، اس بنیاد پر ان کے ساتھ اہل سنت لڑکی کا رشتہ بھی ناجائز ہے، اگررشتہ ہوجاتا ہے تو دانستہ طور پر گناہ کی زندگی گزارنے کے مترادف ہے، ایسا نکاح ہوجانے کے بعد سب سے بڑی پیچیدگی یہ ہے کہ سر ے سے یہ نکاح نہیں ہوا۔اسلام سے متصادم نظریات کے حامل انسان کے ساتھ ایک مسلمان لڑکی کانکاح کیوں کرصحیح ہوسکتا ہے۔ برادری اور ماحول کے ہاتھوں مجبور ہوکر اگر کوئی اس ناجائز نکاح کو نبھانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے تو مسلمان لڑکی کو اپنے دین سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔اور اسی طرح کی زندگی گزارنا ہوگی جس طرح یہ حضرات گزار رہے ہیں۔ متعہ اور تقیہ جیسے حیا سوز مناظر دیکھنے اور عمل میں لانے کے لئے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض وعناد رکھنے اور انھیں سب و شتم کرنے کےلئے بھی اپنے اندر نرم گوشہ پیدا کرنا ہوگا، الغرض مذکورہ عقائد کے حامل انسان کے ساتھ ایک مسلمان لڑکی کا نکاح نا جائز ہے، ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا رشتہ اور تعلق نہ رکھا جائے۔البتہ دعوت وتبلیغ کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے، عین ممکن ہے کہ ان کوششوں سے اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست پر لے آئے۔ سوال۔ بدین سندھ سے محمد نواز سومرو سوا ل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے کردیا ،بوقت نکاح حق مہر کا تعین نہ ہوا ۔چند روز کے بعد لڑکے کے والدین نے خود ہی حق مہر کی رقم مقرر کردی۔نکاح نامے میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا۔ نکاح کے بعد چند وجوہات کے پیش نظر لڑکی اپنے سسرال نہیں گئی۔ اب شرعی لحاظ سے ایسے نکاح کی کیا حیثیت ہے۔اگر نکاح صحیح ہے تو حق مہر کی ادائیگی ضروری ہے یا نہیں؟ اگر لڑکا حق مہر ادا کرنے سے انکار کردے تو اس کا حل کیا ہے۔واضح رہے کہ لڑکے نے اب طلاق دے دی ہے۔ جواب۔مہر اس مال کانام ہے جو عورت کے نکاح کے بعد اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات کے عوض دیا جاتا ہے لیکن اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مہرکا ذکر کئے بغیر اگر نکاح ہوجائے تو وہ شرعاً صحیح اوردرست ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم طلاق دو اپنی بیویوں کو جنھیں تم نے چھوا تک نہیں او ر نہ ہی ان کا حق مہر مقرر کیا ہے۔''(2 /البقرہ:236) اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسے نکاح کے بعد طلاق دینا جس میں حق مہر مقرر نہ ہوا ہو کوئی گناہ نہیں ہے۔چونکہ طلاق نکاح کے بعد دی جاتی ہے۔اس لئے یہ آیت حق مہر مقرر کیے بغیر نکاح کے جواز کی دلیل ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔اب اگر نکاح کے بعد رخصتی (تعلقات زن وشوئی یا خلوت صحیحہ) کے مراحل بخیر وخوبی سر انجام پاچکے ہیں تو ا س کی دو صورتیں ہیں۔ 1۔نکاح سے پہلے جو حق مہر طے پاچکا ہےاگراس پر فریقین کا اتفاق ہےتو خاوندکے ذمہ یہی واجب الادا ہوگا۔ 2۔اگر ا س پر اتفاق نہیں ہوا، محض یکطرفہ تجویز تھی تو اسے مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ مہر مثل سے مراد امثال واقران(حقیقی بہنوں،پھوپھیوں یا چچا زاد بہنوں وغیرہ) کا مہر ہے۔جو اس عورت کے مثل دوسری عورت کا مقرر ہوا ہو۔اس کے تعین کے لئے ہم مثل عورتوں کی عمر حسن وجمال علم عقل دینداری اور اخلاق وکردار کا لحاظ بھی رکھا جائے گا۔ اگر نکاح کے بعد ر خصتی(تعلقات زن وشو ئی یا خلوت صحیحہ) کے مراحل ابھی تک طے نہیں ہوئے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں: 1۔نکاح سے پہلے طے ہونے والے حق مہر پر اگراتفاق ہے تو طلاق کے بعد اس کا نصف خاوند کے ذمہ واجب الادا ہوگا۔ |