کرے۔شرعی طور پر مالک اور اپنے کرایہ دار کا یہ کاروبار ناجائز ہے۔ ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سوال۔راولپنڈی سے عرفان علی کہتے ہیں کہ آپ کے فتویٰ کے مطابق بینک میں ملازمت کرنا منع ہے لیکن اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کے پاس ملازمت کرتا ہے اگر مالک اپنے ملازم کو بنک کے کسی کام کے لئے بھیجتا ہے تو ملازم پر کوئی بوجھ تو نہیں ہوگا۔ جواب۔دور حاضر میں دو ایسے فتنے ہیں کہ ایک باغیر ت مسلمان اجتناب کی کوشش کے باوجود اضطراری حالات میں ملوث ہوجاتاہے۔ایک فتنہ تصویرکشی اور دوسرا سودخوری، اسلامی حکومت میں سودی کاروبار نہ صرف ناپسندیدہ ہے بلکہ ایک فوجداری جرم ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمال کے ذریعے اسلامی مملکت میں رہنے ولے قبائل عرب کو آگاہ کردیاتھا کہ اگر وہ سودی لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سنگینی کو بایں الفاظ واضح فرمایا:'' کہ اس کا ہلکا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی حقیقی ماں کے ساتھ منہ کالا کرے۔''اس لئے ایک مسلمان کو اختیاری حالات میں اس سے گریز کرنا چاہیے اگر کبھی کبھار کسی مجبوری کے پیش نظر بینک میں جانا پڑے تو امید ہے کہ مواخذہ نہیں ہوگا۔(واللہ اعلم) سوال۔سعودیہ سے محمدعاصم لکھتے ہیں کہ ایک بینک کا ملازم بظاہر صوم وصلوۃ کاپابند ہے۔ایسے بینک ملازم کے گھر کھانا پیناشرعاً کیسا ہے؟ جواب۔واضح ہوکہ سود نہ صرف ناپسندیدہ عمل اور حرام کام ہے۔بلکہ اسلامی حکومت کے دائرہ میں سودی کاروبار ایک فوجداری جرم ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایسا کاروبار نہ چھوڑنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیاہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اگرتم اس(سودی کاروبار)سے باز نہ آئےتو آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارےخلاف اعلان جنگ ہے۔'' (2/البقرہ:279) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:'' کہ سود کھانے، کھلانے ،لکھنے اور اس کی گواہی دینے والا ملعون ہے۔''(صحیح مسلم) لہذاسودی کاروبارحرام اور اس کی ملازمت بھی ناجائز ہے۔پھر عبادت کی قبولیت کے لئے اکل حلال ایک بنیادی شرط ہے، حرام کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ لہذاجب بینک کی ملازمت ناجائز اورحرام ہےتو اس کی کمائی بھی حرام ہے۔ایک بندہ مومن کواختیاری حالات میں اس کا استعمال درست نہیں بالخصوص ایک داعی اسلام کو تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے، البتہ دعوتی نقطہ نظر سے ایسے انسان کی دعوت قبول کرنے میں گنجائش ہے ،بشرطیکہ بینک ملازم کو اس کے انجام بدسے خبردار کرنے کی نیت ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی دعوتوں کو بعض اوقات قبول کیا ہے، لیکن دعوتی نقطہ سے ہٹ کر ازخودسودخوار کے گھرکھاناجائزنہیں ہے۔اگرایسے حالات پیداہوجائیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو یا سودخوارکسی اور ذرائع سے دعوت کا اہتمام کرتا ہے توامید ہے کہ اللہ کے ہاں اس قسم کی دعوت قبول کرلینے میں مواخذہ نہیں ہوگا۔ سوال۔سمہ سٹہ سے محمداکرم دریافت کرتے ہیں کہ ایک آدمی خون اور مردار خرید کر مرغیوں کی خوراک تیار کرتا ہے، پھر اسے فروخت کرتا ہے، اس کے کاروبار کی کیاشرعی حیثیت ہے؟واضح فرمائیں۔ جواب۔شریعت اسلامیہ نے خون اور مردار کو حرام قرار دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حرام چیزوں کی خریدوفروخت بھی حرام اور ناجائز ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت اعلان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب، خنزیر اور |