یو ں قا ئم کیا ہے : ’’اس با ب میں صدقہ فطر کے طور پر ہر قسم کی اشیا ئے خوردنی ادا کر نے کا بیا ن ہے نیز اس شخص کے خلا ف دلیل ہے صدقہ فطر میں پیسے اور نقدی ادا کر نے کو جائز خیا ل کر تا ہے ۔‘‘(صحیح ابن خزیمہ) اس کے بعد انہو ں نے حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا قو ل نقل کیا ہے کہ رمضان کا فطر انہ ایک صاع طعا م سے ادا کیا جا ئے جو گند م سے قبو ل کی جا ئے گی، نیز جو ،کھجور ،منقی وغیرہ کو بھی قبو ل کیا جا ئے گا ۔حتی کہ انہوں نے آٹے ،ستو کا بھی ذکر فر ما یا ہے لیکن اس میں قیمت کا کو ئی ذکر نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ لو گ فطرا نہ میں قیمت ادا کر نے سے با لکل نا آشنا تھے ۔(صحیح ابن خزیمہ ) علا مہ ابن حز م رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’کہ فطرا نہ میں قیمت ادا کرنا بالکل نا جا ئز ہے کیو نکہ قیمت کا ادا کر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت نہیں ہے ،نیز حقو ق العبا د میں فر یقین کی رضا مند ی سے قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔ جب زکو ۃ کے وقت کو ئی ما لک نہیں ہوتا جس کی اجا زت کا اعتبا ر کیا جا ئے ۔‘‘ (محلیٰ ابن حز م :6/137) محد ث العصر علا مہ عبید اللہ مبا رک پو ری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صدقہ فطر میں قیمت نہ دی جا ئے بلکہ جنس ادا کی جا ئے ،البتہ کسی عذر کے پیش نظر قیمت ادا کی جا سکتی ہے ۔(مرعا ۃ المفا تیح :4 /100) عذر کی صورت یو ں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص روزا نہ با زا ر سے آٹا خرید کر استعما ل کر تا ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ با زا ر سے غلہ خرید کر صدقہ فطر ادا کر ے بلکہ وہ بازا ر کے نر خ کے مطا بق اس کی قیمت ادا کر سکتا ہے ۔ صاع کا وز ن : صاع وزن کا پیما نہ نہیں بلکہ ما پ کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وزن کے پیما نے مو جو د تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کے لیے وزن کے بجا ئے ما پ کے پیما نہ کا انتخا ب کیا، اس لیے بہتر ہے کہ اس سنت کا احیا کیا جائے، ویسے صاع کا وزن مختلف اجنا س کے لحا ظ سے مختلف ہو تا ہے ،صاع نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدا ر 33.5رطل تھی۔ (فتح الباری :1/305) مختلف فقہا کی تصریح کے مطا بق ایک رطل نو ے مثقال کا ہو تا ہے۔ اس حسا ب سے 33.5رطل(صا ع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے 480 مثقا ل بنتے ہیں۔ ایک مثقا ل سا ڑھے چا ر ما شہ کا ہو تا ہے ۔اس حسا ب سے 480 مثقا ل کے دوہزا ر ایک سو سا ٹھ (2160)ما شے ہو ئے ،چو نکہ ایک تو لہ میں با رہ ما شے ہو تے ہیں، لہذا با رہ پر تقسیم کر نے سے ایک سوا سی (180) تولہ وز ن بنتا ہے۔ جد ید اعشا ری نظا م کے مطا بق تین تو لہ کے 35 گرام ہو تے ہیں ،اس حسا ب سے 2100گرا م یعنی دو کلو سو گرا م ہے ۔ پرانے حسا ب کے مطا بق 180 تو لہ کا وزن دو سیر چا ر چھٹا نک ہے۔ ہمارے اس مو قف کی تا ئید اس پیما نہ صاع سے بھی ہو تی ہے جو مو لا نا احمد اللہ دہلو ی رحمۃ اللہ علیہ مد ینہ منو رہ سے لا ئے تھے جس کی مقدا ر دو سیر چا ر چھٹا نک تھی ،نیز وہ مد ینہ سے ایک مد بھی لا ئے تھے جس کی با قاعدہ سند تھی ،اس کی مقدار نو چھٹا نک تھی ۔وا ضح رہے کہ ایک صا ع میں چا ر مد ہوتے ہیں اس کے علا وہ مولانا عبد الجبا ر رحمۃ اللہ علیہ کے پا س ایک صا حب مد کا پیما نہ لا ئے تھے جس کا و ز ن کیا گیا تو نو چھٹا نک کا تھا ۔(فتا وی اہلحدیث :2/72) اگر چہ کچھ اہل حدیث حضرا ت صاع کا وز ن پو نے تین سیر مو جو دہ اعشاری نظا م کے مطا بق اڑھا ئی کلو بتا تے ہیں، ہم نے اپنی تحقیق نقل کر دی ہے اگر اس سے کسی کا اتفا ق نہ ہو تو وہ اپنی تحقیق کے مطا بق فطرا نہ ادا کرتا رہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ہما ری پیش |