Maktaba Wahhabi

225 - 495
اعتکا ف نہیں ہو گا۔ کیو نکہ شرعی اعتکا ف کے لیے مسجد کاہو نا ضروری ہے۔ اعتکاف کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ رمضا ن المبا رک کی بیس تاریخ کو مغر ب کی نما ز مسجد میں ادا کر ے اور رات مسجد میں ہی قیا م کرے ،مغرب کے بعد اعتکا ف کا آغا ز ہو جا تا ہے، البتہ اعتکا ف گا ہ میں اکیس رمضا ن کو نما ز فجر کے بعد داخل ہو۔ سوال۔میلسی سے حبیب اللہ لکھتے ہیں کہ صدقۃ الفطر کس چیز سے ادا کر نا چا ہیے نیز اس کی مقدا ر کتنی ہے اگر قیمت ادا کر دی جائے تو کیا یہ درست ہے یا نہیں اور یہ بھی بتا ئیں کہ مو جو د ہ اعشا ری نظا م کے مطابق اس کا کتنا وزن بنتا ہے ؟ جوا ب۔علا مہ ابن حز م رحمۃ اللہ علیہ کا مو قف ہے کہ فطرا نہ میں صرف کھجو ر یا جو ہی دئیے جا ئیں ،اس کے علا وہ دوسری اشیا ء سے صدقہ فطرجا ئز نہیں ہے ۔لیکن یہ مو قف صحیح احا دیث کے خلا ف ہے۔ احا دیث سے معلو م ہو تا ہے کہ جن اجنا س کو انسا ن بطو ر غذ استعما ل کر تا ہے ان سے صدقہ فطر ادا کیا جا سکتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عمو ماً جو ،کھجور ،منقی اور پنیر وغیرہ بطو ر خو را ک استعما ل ہو تے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کو انہی اجنا س خوردنی سے صدقہ فطر ادا کر نے کا حکم دیا ،چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں اپنی خو را ک میں سے ایک صا ع بطو ر فطر انہ ادا کر تے تھے اور ہما ری خو راک جو منقی پنیر اور کھجو ر ہو ا کرتی تھی ،اس لیے فطرا نہ ہر اس چیز سے ادا کیا جا سکتا ہے جو سا ل کے بیشتر حصہ میں بطو ر خو را ک استعما ل ہو تی ہے ۔(صحیح بخا ری ) مقدا ر :گھر کے ہر فرد کی طرف سے صدقہ فطر ایک صاع اداکیا جا ئے ، البتہ گند م سے نصف صاع ادا کر نے کی روا یا ت بھی منقو ل ہیں ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فر ما تی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں گندم سے دو مد یعنی نصف صا ع بطو ر فطر انہ ادا کر تے تھے ۔ (مسند امام احمد :6/350) شیخ الا سلا م امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں " کہ فطر انہ کی مقدار کھجور اور جو سے ایک صا ع اور گند م سے نصف صا ع ادا کیا جاسکتا ہے ۔(اختیا رات :106) ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مو قف کو اختیا ر کیا ہے ۔ (زادا لمعا د : ہدیہ فی صدقۃ الفطر ) عرب میں دوسری اشیا ئے خوردنی کے مقا بلہ میں گندم چو نکہ مہنگی ہو تی تھی، اس لیے نصف صاع کا اعتبا ر کیا گیا ہے ۔بعض صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم اس کے با وجو د گندم سے بھی ایک صاع دینے کے قا ئل اور فا عل تھے۔ تا ہم ہمار ے ہا ں گند م عا م دستیا ب ہے، اس لیے گند م سے ایک صاع ہی ادا کر نا چا ہیے ۔صریح نصوص کا یہی تقا ضا ہے ۔ قیمت ادا کر نا : ہما ر ے ہا ں عا م طو ر پر غر با کی ضرورت کے پیش نظر صدقہ فطر میں نقدی دی جا تی ہے حا لا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے قیمت ادا کرنا ثا بت نہیں ہے بلکہ عہد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور خلا فت را شد ہ میں میں فطرانہ اجنا س خو ردنی سے ادا کیا جا تا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرا نہ کا مقصد’’ مسا کین کی خو را ک‘‘ ٹھہرا یا ہے ، اس کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ فطرا نہ میں اشیا ئے خو ردنی ہی ادا کی جا ئیں، امام ما لک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ( رحمۃ اللہ علیہم ) صرف جنس ہی ادا کر نے کے قائل ہیں ،محدثین کرا م میں سے کسی نے بھی اس با ت کی صرا حت نہیں کی کہ فطرا نہ میں قیمت دی جا سکتی ہے ۔بلکہ محد ث ابن خز یمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان
Flag Counter