Maktaba Wahhabi

219 - 495
فضیلت کے متعلق احا دیث مروی ہیں ۔بہتر ہے کہ عید الفطر کے متصل بعد چھ روزے مسلسل رکھ لیے جا ئیں تا ہم اگر ماہ شوال میں متفرق طور پر بھی رکھ لیے جا ئیں تو بھی جا ئز ہے ۔(ترغیب) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے متعلق کر اہت منقو ل ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ : میں نے کسی اہل علم کو یہ روزے رکھتے نہیں دیکھا اور نہ مجھے ان کے متعلق اسلاف کا طرز عمل پہنچا ہے بلکہ اہل علم انہیں مکرو ہ خیا ل کر تے ہیں اور ان کے بد عت ہو نے کا اندیشہ رکھتے ہیں، مز ید یہ بھی اند یشہ ہے کہ نا دا ن لو گ اپنی جہا لت کی وجہ سے رمضان کے سا تھ ایک ایسی چیز کا الحا ق کر دیں گے جو اس سے نہیں ہے ۔( مؤطا امام مالک) جہاں تک ان کے بد عت ہو نے کا تعلق ہے تو یہ ایک بے بنیا د شو شہ ہے کیو نکہ متعدد صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے ان روزوں کی مشرو عیت مرو ی ہے، جیسا کہ پہلے بیا ن ہو ا ہے، با قی امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ میں نے کسی اہل علم کویہ روزے رکھتے نہیں دیکھا تو اس کے متعلق علا مہ شو کا نی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :"مخفی نہ ہے کہ اگر لو گ سنت پر عمل کر نا ترک کر دیں تو ان کا یہ عمل ترک سنت کے لیے دلیل نہیں بن سکتا ۔‘‘ (نیل الا وطا ر :4/322) امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ شر ح مسلم میں لکھتے ہیں: جب سنت ثا بت ہو جا ئے تو اسے با یں وجہ نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا ۔(شرح مسلم :1/329) عین ممکن ہے کہ امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ تک مذکو رہ احا دیث نہ پہنچی ہو ں یا وہ انہیں صحیح نہ سمجھتے ہو ں ۔اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے چند ایک وجو ہ کے پیش نظر اسے قا بل عمل نہیں سمجھا جن کی تفصیل حسب ذیل ہے : شوال کے روزوں کو ما ہ رمضا ن کے روزوں کے ساتھ ملا کر رکھنے کو زما نہ بھر کے روزوں سے تشبیہ دی گئی ہے ،حا لا نکہ ہمیشہ روزہ رکھنے سے متعلق حکم امتناعی متعد د احا دیث میں مروی ہے، چنا نچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ جو ہمیشہ روزے رکھتا ہے اس کی کیا حیثیت ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :کہ اس نے نہ روزہ رکھا، نہ افطا ر کیا۔ (صحیح مسلم :کتا ب الصوم) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے روزوں کی کو ئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اعتراض اس لیے بے بنیا د ہے کہ حدیث میں صرف ثوا ب کو تشبیہ دی گئی ہے ،بلا شبہ ہمیشہ کے روزے رکھنا منع ہے لیکن ما ہ شوال کے روزوں کو حقیقت کے اعتبا ر سے نہیں بلکہ اجر و ثو اب کے لحا ظ سے انہیں صیا م الد ھر کہا گیا ہے، لہذا یہ حکم امتنا عی میں شامل نہیں ہیں جیسا کہ ہر ما ہ کے تین روزے رکھنے کے متعلق حدیث ہے :" کہ اس نے گو یا زما نہ بھر کے روزے رکھے ۔(سنن نسائی ،کتا ب الصو م ) ان پر مد اومت کر نے سے عوام النا س میں یہ اعتقاد ابھر نے کا اند یشہ ہے کہ شا ید یہ بھی ضروری ہیں ،حا لا نکہ اس اعتراض کی کو ئی حیثیت نہیں ہے کیو نکہ اس قسم کے اندیشہ ہا ئے دو ر دراز کی وجہ سے کس کس سنت کا خو ن کیا جا ئے گا ۔عا شو ر ہ اور یو م عر فہ کے روزے بھی اس ضا بطہ کی زد میں آتے ہیں، اگر چہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ما ہ شوال کے ان چھ روزوں کے متعلق کراہت کا اظہا ر کیا ہے لیکن متا خر ین احنا ف نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس مو قف سے اتفا ق نہیں کیا ،چنانچہ لکھا ہے :"امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نز دیک ما ہ
Flag Counter