پڑجائے۔‘‘ (دارمی :29/437) فحش گو ئی و بد کلا می روزے دار کے لیے بد کلا می سے بھی اجتناب کر نا ضروری ہے کیو نکہ ایسا کرنے سے روزہ دار اس کے ثوا ب سے محروم ہو جا تا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے :"روزہ ڈھا ل ہے (اس لیے ) روزہ دار کو چا ہیے کہ وہ فحش گو ئی اور جہا لت و نادانی سے اجتنا ب کرے ۔(صحیح ابن حبا ن :6/183) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ جب تم میں سے کو ئی بحا لت روزہ ہو تو اسے بدزبا نی جہا لت اور نادانی سے پر ہیز کر نا چاہیے ۔‘‘ (صحیح بخا ری :کتا ب الصوم ) گا لی گلو چ اور سب وشتم روزے دار کو اس حد تک احتیا ط کر نا چا ہیے کہ اگر کو ئی اسے گا لی دیتا ہے تو اسے جوابی کا روائی کی اجازت نہیں ہے۔ حدیث میں ہے :"کہ اگر کو ئی روزے دار کو گا لی دے کر جہا لت کا ثبو ت دیتا ہے تو اسے چا ہیے کہ خا مو ش رہے اسے گا لی نہ دے ۔‘‘ (صحیح بخاری :کتاب الصوم ) بلکہ بعض روایا ت میں ہے "کہ گا لی دینے والے کو شائستگی سے جواب دے کہ بھا ئی میں روز ے کی حا لت سے ہو ں ۔"(صحیح بخاری:کتا ب الصوم) فضو ل کا م اور جھوٹی کلا م روزے دار کو جھوٹی با تو ں اور فضو ل کا مو ں سے بھی بچنا چا ہیے، ان کے ارتکا ب پر بھی سنگین و عید وارد ہے ،چنانچہ حدیث میں ہے : کہ جو انسان روزے کے با وجو د کذب بیا نی ،جھو ٹی با تو ں اور غلط کا مو ں سے با ز نہیں آتا اللہ تعا لیٰ کو اس کے روزے کی کو ئی ضرورت نہیں ،وہ خواہ مخواہ بھو ک اور پیا س برداشت کر تا ہے ۔(صحیح بخا ری ) بیو ی سے بو س و کنا ر کرنا جو روزہ دار اپنی شہو ت پر قا بو نہ رکھتا ہو، اس کے لیے اپنی بیو ی سے بغلگیر ہو نا جا ئز نہیں ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحا لت روزہ اپنی بیو ی سے بغلگیر ہو نے کے متعلق پو چھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجا زت دے دی ۔ایک دوسر ے شخص نے یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فر ما دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فر ما یا :" کہ جس شخص کو آپ نے اجاز ت دی وہ بو ڑھا تھا اور جسے منع کیا وہ جوا ن تھا ۔ (ابو داؤد :کتا ب الصوم ) اس کی وضا حت حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا با یں الفا ظ فر ما تی ہیں :"کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحا لت روزہ مجھ سے بغلگیر ہوتے اور بو سہ لیتے لیکن وہ اپنی شہو ت پر سب سے زیا دہ قا بو پا نے والے تھے ۔(صحیح بخا ری ۔کتاب الصوم ) |