Maktaba Wahhabi

184 - 495
کا شتکا ر کو متعدد ما لی اخرا جا ت کی وجہ سے بیسواں حصہ دینے کی رعا یت دی گئی ہے۔ اگر اس رعا یت کے با وجود ٹھیکہ کی رقم کھا د، سپرے کے اخرا جا ت، کٹا ئی کے لئے مز دوری اور تھر یشر وغیرہ کے اخرا جا ت بھی منہا کر دئیے جا ئیں تو با قی کیا بچے گا جو عشر کے طو ر پر ادا کیا جا ئے گا۔ لہذا ہما را رجحا ن یہ ہے کہ کا شتکا ر کسی قسم کے اخراجات منہا کیے بغیر اپنی پیداوار سے بیسواں حصہ بطورعشر ادا کر ے گا بشرطیکہ اس کی پیداوار پا نچ وسق تک پہنچ جا ئے اگر اس سے کم ہے تو عشر نہیں، ہاں اگر چا ہے تو فی سبیل اللہ دینے پر کو ئی پا بندی نہیں ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ اٹک سے محمد ز ما ن لکھتے ہیں کہ زکوۃ کے متعلق ہمیں بتا یا گیا ہے کہ دو سو در ہم چا ندی کے پچا س روپے ہو تے ہیں، اسی طر ح بیس دینا ر سو نے کے سا ٹھ رو پے،اس حسا ب سے جس شخص کے پا س پچا س روپے کی چاندی، اسی طرح سا ٹھ رو پے یا سا ٹھ روپے کا سو نا ہو اور اس پر سا ل گز ر جا ئے تو ان سے چا لیسوا ں حصہ بطور زکو ۃ ادا کر نا ضروری ہے یہ مسئلہ کہا ں تک درست ہے ؟ قرآن وحدیث کی رو سے جوا ب دیا جائے۔ جواب۔سو نے کی زکو ۃ کے متعلق ہما رے علماء میں اختلاف ہے کہ اس میں وزن کا اعتبا ر ہے یا قیمت کو مدنظر رکھا جائے؟ مولانا عبدالوہا ب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتو ی ہے کہ قیمت کا اعتبا ر کیا جا ئے چو نکہ عہد نبوی میں ایک دینار تین روپے کے برا بر ہو تا تھا اور سونے کی زکو ۃ کا نصا ب بیس دینا ر ہے، اس لیے سو نے کی زکو ۃ کے لیے سا ٹھ رو پے کی ما لیت کا سو نا ضروری ہے۔ حا فظ عبد اللہ روپٹری رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی ہے کہ زکو ۃ کے لیے وزن معتبر ہو گا کیوں کہ بعض روا یا ت میں بیس مثقا ل سو نے سے زکو ۃ ادا کرنے کا ثبو ت ملتا ہے اور مثقا ل کا تعلق وزن سے ہے نقدی سے نہیں اور مثقا ل سا ڑھے چا ر ما شہ کا ہو تا ہے اس حسا ب سے بیس مثقا ل ساڑھے سا ت تو لے کے مسا وی ہے جس سے زکوۃ ادا کی جا ئے ۔مو لا نا ثنا ءاللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ نے دو نو ں حضرا ت کے مو قف کے بین بین ایک تطبیقی صورت بیا ن فر ما ئی ہے کہ نص حدیث سے وزن معتبر ہے اور اقتضا ئے وقت کے پیش نظر قیمت کا اعتبا ر کیا جا ئے جس صورت میں بھی غر با اور مسا کین کا فائدہ ہو اسے اختیا ر کیا جا ئے۔ ہما را رجحا ن وزن کی طرف ہے اور اگر قیمت کا لحا ظ رکھنا ہے تو بھی حا ضر بھاؤ سے لگا ئی جائے۔ ایسا نہیں ہو نا چا ہیے کہ عہد رسا لت میں سو نے کی قیمت کے مطابق آج حسا ب لگا کر 60روپے کی ما لیت پر زکو ۃ واجب قرار دی جائے۔ اب اگر اس کے پا س ساڑھے سا ت تو لے سو نا مو جو د ہو اور اس پر سا ل گزر جا ئے تو چا لیسواں حصہ سو نا اس کے مسا وی حا ضر بھا ؤ کے حسا ب سے قیمت بطور زکو ۃ نکا لی جا ئے۔ نقدی کے متعلق ہما را مو قف یہ ہے کہ اگر کسی کے پا س اتنی نقد ی ہو جس سے سا ڑھے با و ن تو لے چاندی خریدی جا سکے اور اس جمع شدہ نقدی پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ زکو ۃ ادا کر نا ضروری ہے۔ سوال میں ذکر کر دہ پچا س یا سا ٹھ روپے کی ما لیت سے زکو ۃ ادا کرنا ہمیں اس سے اتفاق نہیں۔(واللہ اعلم بالصوا ب ) سوال۔ محمد اسما عیل صا حب کرا چی سے لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک خدمت کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا کام صاحب حیثیت افراد سے زکو ۃ وصول کر کے مستحق افراد تک پہنچا نا ہے، نیز اس جمع شدہ زکو ۃ سے مستحقین کا علا ج و معا لجہ بھی کیا ہے اور ان کے بچو ں کے لیے ما ہا نہ و ظائف اور بچیوں کی شا دی وغیرہ کے اخراجات بھی برداشت کیے جا تے ہیں، مجھے مسئلہ یہ پو چھنا ہے کہ زکو ۃ کی رقم کب تک رکھ سکتے ہیں ؟ کیا جس سا ل کی زکو ۃ ہو اسی سا ل خرچ کر نا ضروری ہے ؟
Flag Counter