سے نمازی گو خارجی وساوس اور نماز کے منافی سوچ وبچار سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ انگشت شہادت کا براہ راست دل سے تعلق ہے، اس کے حرکت کرنے سے دل بھی رکا رہتا ہے جیسا کہ حدیث بالا میں اس کا اشارہ موجود ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ دوران نماز، شیطان کو اپنے سے دور رکھنے کے لئے انگشت شہادت کی یہ حرکت بہت کارگر ہے۔(مسند ابی یعلی :ص275/27) ایک روایت میں ہے کہ شیطان اس سے بہت پریشان ہوتاہے۔(سنن بیہقی :ص 132/27) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اس کی ترغیب بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے دائیں ہاتھ کی وہ انگلی اٹھا لیتے جو انگوٹھے سے متصل ہے، پھر اس کے ساتھ دعا مانگتے۔(صحیح مسلم :المساجد 580) جو حضرات اس اشارہ اور حرکت کے قائل ہیں ان میں سے بعض کا موقف یہ ہے کہ تشہد میں ''اشهد ان لا الٰه الا اللّٰه ‘‘ كہتے وقت انگشت شہادت اٹھائی جائے۔اور جب یہ شہادت توحید ختم ہوجائے تو اپنی انگلی کو نیچے کرلیا جائے، ان کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے۔ حضرت خفاف بن ایما رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لئے بیٹھے تو انگلی سے اشارہ کرتے جس سے آپ کی مراد توحید ہوتی۔(بیہقی :ج2 ص 133) علامہ صنعانی لکھتے ہیں کہ دوران تشہد اشارے کا مقام لا الٰہ الا اللہ کہتے وقت ہے۔کیوں کہ امام بیہقی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک نقل فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس اشارہ سے مراد توحید واخلاص ہے۔(سبل السلام :ج1 ص 319) لیکن اس حدیث میں کسی قسم کی صراحت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا الٰہ الا اللہ کہنے پر اشارہ کرتے تھے، پھر یہ حدیث معیار محدثین پر پوری بھی نہیں اُترتی۔اس لئے محل اشارہ کی تعیین کےلئے کوئی صریح اور صحیح حدیث مروی نہیں ہے بلکہ بظاہر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع تشہد سے انگلی اٹھانا چاہیے اور سلام پھیرنے تک اسے حرکت دیتے رہنا چاہیے، چنانچہ حضرت وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل مبارک بایں الفاظ بیان کرتے ہیں ''ہم نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی ہلا رہے تھے اور اس کےساتھ دعا کررہے تھے۔''(ابوداؤد :الصلاۃ 727) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں'' کہ اس حدیث میں انگشت شہادت کے متعلق مسنون طریقہ بیان ہوا کہ اس کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیوں کہ دعا سلام سے متصل ہے۔''(صفۃ الصلاۃ : 158) برصغیر کےنامور محدثین کا بھی یہی موقف ہے کہ انگشت شہادت کی حرکت شروع تشہد سے آخر تشہد تک جاری رہنی چاہیے۔(عون المعبود:ج1 ص 374،تحفۃ الاحوذی :ج1ص 241 ،مرعاۃ المفاتیح :ج2 ص 468) بعض روایات میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد اپنی انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔ (ابو داؤد :الصلوۃ 989) لیکن عدم حرکت کا یہ اضافہ شاذ ہے کیوں کہ مذکورہ روایت محمد بن عجلان کی بیان کردہ ہے جو متکلم فیہ راوی ہے، اس کے بیان کرنے والے خالد الاحمر ،عمرو بن دینار ،یحییٰ اور زیاد چار راوی ہیں۔ مذکورہ اضافہ بیان کرنے والے صرف زیاد ہیں جو باقی رواۃ کی مخالفت کرتے ہیں۔اگرثقہ راوی، دوسرے ثقات کی مخالفت کرے تو اس کی بیان کردہ روایت کو شاذ قرار دیا جاتا ہے، علامہ |