Maktaba Wahhabi

74 - 345
مَعَہُمْ ۔ ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کے موقع پر دُعا کرتے تھے کہ یا اللہ!ہم پہلے تجھے اپنے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے۔ ان الفاظ میں اس رائج طریق توسل کا ذکر نہیں ، جس میں کسی غائب شخص کا وسیلہ دیا جاتا ہے اور اسے شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا وسیلہ پکڑ رہا ہے۔اس حدیث میں تو سلف صالحین کے طریق توسل کا اثبات ہے۔ سلف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی مقرب الٰہی شخص کو آگے کرتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں۔ پھر وہ اس سفارش کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے۔ جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ اگر اس حدیث میں بعد والے لوگوں کے (وضع کردہ) طریقہ توسل کا ذکر ہوتا، تو پھر صحابہ کرام کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور ان کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ہی کا وسیلہ کافی ہوتا یا عباس رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے نام کا وسیلہ دے دیا جاتا۔‘‘ (فیض الباري : 2/379) ثابت ہوا کہ عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث سے توسل بالذوات والاموات کا استدلال بالکل درست نہیں ۔
Flag Counter